ٹیپوؒ شہید سے علامہ اقبال کی عقیدت (آخری قسط)… ذوالفقار احمد چیمہ


علامہ اقبالؒ سلطان ٹیپوؒ شہید کے مزار سے سرنگا پٹم قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور ایک بجے کے قریب دولت باغ پہنچے جو قلعے کی نزدیک ہے۔

سرنگا دراصل ایک جزیرہ ہے جو دریائے کاویری کی دو شاخوں کے درمیان واقع ہے۔ ایک حصے میں باغ اور قلعہ ہے، دوسرے میں شہر آباد تھا، جس کی آبادی سلطان ٹیپو کی شہادت کے چار پانچ سال بعد بھی دو تین لاکھ سے کم نہ تھی، مگر اب یہ ایک ویرانہ ہے۔ مہاراجہ میسور کے مصاحبِ خاص صدیق الملک صادق زین العابدین شاہ علامہصاحب کے استقبال کے لیے دولت باغ میں منتظر تھے۔ جہاں دوپہر کی ضیافت کا انتظام تھا۔ دولت باغ میں سلطان ٹیپو کے زمانے کے درخت ابھی تک موجود تھے۔

سلطان شہید کو قلعے کی عمارت اور باغ سے خاص انس تھا۔ دولت باغ کے ایک طرف دریائے کاویری بہتا ہے اور اس کا منظر نہایت ہی دلفریب ہے۔ کھانے سے فراغت کے بعد علامہ اقبالؒ سرنگا پٹم قلعے کی جانب چلے گئے۔ وہاں انھوں نے مسجدِ اعلیٰ دیکھی ، یہ وہ مقام ہے جہاں سلطان ٹیپو کی شہادت ہوئی تھی۔ مسجدِ اعلیٰ کے بوڑھے امام سے ڈاکٹر صاحب کی ملاقات ہوئی، معلوم ہوا کہ ان کے دادا سلطان ٹیپو کے زمانے میں مسجدِ اعلیٰ کے امام تھے۔ انھوں نے اپنے والد کی روایت سے علامہصاحب کو بتایا کہ سلطان ٹیپو مسجد کی عقبی دیوار کے دروازے سے مسجد میں نماز کے لیے آیا کرتے تھے۔

سرنگا پٹم سے واپسی پر رستے میں علاّمہ نے سدِکاویری (کاویری ڈیم) دیکھا۔ کاشتکاروں کو زراعت کے لیے وافر پانی فراہم کرنے کی خاطر اس بند کی بنیاد سلطان ٹیپو نے رکھی تھی۔ سلطان ٹیپو کا بنیادی پتھر جس پر فارسی زبان میں کتبہ کندہ تھا اتفاق سے پتھروں میں پڑا مل گیا تھا اور اسے مہاراج میسور کے حکم سے سد کے اوپر عام گزر گاہ کے قریب نصب کردیا گیاتھا۔ انگریزی ترجمہ بھی مرمر کے ایک ٹکڑے پر کندہ کرکے ساتھ نصب کیا گیا اور ساتھ ایک باغ بھی لگوادیا گیا تھا، جس کے فوارے بجلی کے زور سے چھوٹتے تھے اور عجیب وغریب منظر پیدا کرتے تھے۔ علامہ اقبالؒ عصر کے قریب واپس میسور پہنچے۔

بعد ازاں علامہ اقبال میسور کے چند پرانے محلات دیکھنے گئے، ایک مقام پر سلطان ٹیپو کی یاد میں پتھر سے تراشا ہوا شیر ان کی توجہ کا مرکز بنا۔ وہ بجلی کی ٹرالی کے ذریعے ایک پرانے مزار پر بھی پہنچے کیونکہ سلطان ٹیپو اکثر وہاں جایا کرتے تھے۔ چڑیا گھر دیکھا جہاں شیر بالکل کھلے پھرتے تھے لیکن انھیں علم نہ ہوا کہ درمیان میں ایک خندق حائل ہے جو دکھائی نہیں دیتی۔

اسی روز دوپہر کے کھانے کے بعد علامہ اقبالؒ اپنے ہمسفر کے ساتھ بذریعہ موٹر کار واپس بنگلور روانہ ہوئے، راستے میں دو تین مقامات پر دیہاتیوں نے انھیں پھولوں کے ہار پیش کیے۔ سلطان ٹیپو کے مزار کے قریب سے گزرتے وقت انھوں نے موٹر کار سے اتر کر ایک بار پھر فاتحہ پڑھی اور شام پانچ بجے کے قریب واپس بنگلور پہنچ گئے۔ علامہ اقبالؒ نے سلطان ٹیپوؒ شہید کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اردو اور فارسی میں کئی نظمیں لکھی ہیں، ایک فارسی اور ایک اردو نظم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

آں شہیدانِ محبت را امام

آبروئے ہند و چین وروم وشام

نامش از خورشید ومہ تابندہ تر

خاکِ قبرش از من وتو زندہ تر

از نگاہِ خواجۂﷺ بدر وحنین

فقرِ سلطاں وارثِ جذب حسینؓ

 (ٹیپو سلطان شہیدوں کے امام ہیں ، وہ ہندوستان، چین، روم اور ام کی عزت و آبرو ہیں، ان کا نام چاند اور ستاروں سے زیادہ روشن ہے اور ان کی قبر کی خاک مجھ سے اور تجھ سے زیادہ زندہ ہے اور حضور نبی کریمؐ کی نگاہوں میں ٹیپو شہید کا فقر جذبۂ حسینؓ کا وارث ہے)

علاّمہ نے ’سلطان ٹیپوشہید کی وصیت‘ کے عنوان سے ایک اردو میں نظم لکھی ہے، اس نظم میں علاّمہ نے سلطان شہید کی سیرت بیان کی ہے اور وہ اصول بیان کیے ہیں جن پر یہ مردِ مومن پوری زندگی کاربند رہا۔

تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول!

لیلیٰ بھی ہم نشین ہو تو محمل نہ کر قبول!

اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُندوتیز

ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول!

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں!

محفل گداز گرمیٔ محفل نہ کر قبول!

صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول!

باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے

شرکت میانۂ حق وباطل نہ کر قبول!

 علامہ اقبالؒ نے اپنی شاہکار کتاب جاوید نامہ کے آٹھ صفحات سلطان ٹیپوؒ شہیدکے لیے مختص کیے ہیں جس سے سلطان شہیدؒ سے اُن کی عقیدت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آسمانوں کے خیالی سفر میں اقبالؒ اپنے پیرومرشد مولانا رُومی کی سربراہی اور رہنمائی میں فلک زحل میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہاں ایسی روحیں ہیں جنھوں نے اپنے مادی اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک و ملت کے ساتھ غداری کی ہے اور ان کا جرم اتنا سنگین ہے کہ دوزخ بھی اُن کو قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ پیر رومی، اقبال کو اس فلک کے بارے میں تعارف اور جان پہچان فراہم کرتے ہیں اور دوزخ کا مشاہدہ کراتے ہیں، وہ دوزح میں دو غداروں میر جعفر اور میر صادق کی روحیں دیکھتے ہیں۔

بنگال میں میر جعفر کہ جس نے نواب سراج الدولہ کو دھوکا دے کر انگریزوں کے لیے راستہ ہموار کیا اور نواب کو شکست دے کر بنگال پر قبضہ کرلیا۔ یہیں سے ہی انگریزوں کے پورے ہندوستان پر اپنا اثرونفوذ اور سامراجی تسلط قائم کرنے کا دروازہ کھل گیا۔ میر صادق نے ٹیپو سلطان کو فریب دے کر انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرکے قلعے کے اندر داخل ہوکر اُن کو شہید کرادیا۔ اس غدار اور منافق کو اپنی اس بے ایمانی اور غداری کا معاوضہ یہ ملا کر انگریزوں نے اُس کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، کہ تم نے اپنے وطن اور اپنے لیڈروں کے ساتھ وفاداری نہیں کی تو ہمارے ساتھ کیا وفاداری کروگے۔ یہ دنیا میں ہی اُن کا انجامِ بد تھا، اب آخرت کے عذاب کی کیفیت یہ تھی کہ دوزخ کی آگ بھی ان کو قبول نہیں کررہی تھی۔

ہندوستان کی سرزمین میں غلامی کے بیج کس نے بوئے؟ یہ سب کچھ ان ناقبول ارواح کی سازش اور غداریوں کا نتیجہ اور ثمر ہے۔ اس فضائے نیلگوں میں کچھ لمحات کی فرصت ہونی چاہیے، تاکہ ایسی ارواحِ کے ان اعمالِ بد کا انجام ملاخطہ کیا جا سکے کہ کس نوعیت کے عذاب و عتاب میں وہ مبتلا کردی گئی ہیں۔ بقولِ اقبالؒ

ملتے را ہر کجا غارت گرے است

اصلِ اُو از صادقے یا جعفرے است

الاماں از روحِ جعفر الاماں

الاماں از جعفرانِ ایں زماں!

جہاں کوئی ملت تباہ و برباد ہوتی ہے، تو اس تباہی کی تہہ میں کوئی میرصادق اورمیر جعفر جیسا غدار ضرور ہوتا ہے۔ اے میرے اﷲ! تو ہمیں میر جعفر کی روح سے اپنی پناہ میں رکھ، تو ہمیں زمانۂ ِ حاضر کے میرجعفروں سے بچا کے رکھ۔ آج بھی اسلام دشمن قوتوں نے مسلمانوں کی صفوں میں اپنے ایجنٹ چھوڑ رکھّے ہیں، مسلمانوں نے اگر دنیا میں خود دار اور باوقار قوم کی طرح جینا ہے تو سب سے پہلے اپنی صفوں کو غداروں سے پاک کرنا ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس