’’ میں اچھوں کے ساتھ اچھا۔ بروں کے ساتھ سخت برا۔‘‘’’ میں ان لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا رہتا ہوں۔ جو میرے ساتھ اچھے رہتے ہیں۔ لیکن جب لوگ میرے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں۔ یا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو میں ہمیشہ سخت جوابی کارروائی کرتا ہوں۔‘‘’’میں بوڑھا ہونے سے نفرت کرتا ہوں۔ لیکن ہم میں سے کوئی نہیں جو بوڑھا ہونے سے بچ سکے۔ ہم سب کی عمر ایک کریڈٹ کارڈ کی طرح ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں دے رکھا ہے اور جو خرچ ہورہا ہے جلد وہ وقت آتا ہے جب یہ کریڈٹ کارڈ ختم ہوجائے گا۔ اگر ہم اس کارڈ کو مناسب طور پر استعمال نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار کسی اور کو نہیں ٹھہراسکیں گے۔‘‘’’میں سمجھتا ہوں کہ اللّٰہ ہر جگہ موجود ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ میرا ہر فیصلہ اللّٰہ کے سامنے جوابدہی کا جواز رکھے۔ جب میرا حقیقی باس(اللّٰہ) مجھے دنیا سے واپس بلائے گا تو مجھے یقین ہے کہ میرا سفر جنت کی طرف ہوگا۔ دوزخ کی طرف نہیں۔‘‘
یہ دو ٹوک خیالات رکھنے والا 78سالہ ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو پھر 4سال کے لیے وائٹ ہائوس میں داخل ہونے والا ہے۔ بظاہر لا ابالی موالی دکھنے والا یہ پراپرٹی ڈیولیپر ۔40 سے زیادہ کتابوں کا مصنف ہے۔ ان کتابوں کے عنوان سے ہی مصنف کے عزائم کا اظہار ہوجاتا ہے۔ ’’سخت گیر ہونے کا وقت‘‘۔’’ وہ امریکہ جس کے ہم تمنّائی ہیں‘‘۔’’ ایک ارب پتی کی طرح سوچو‘‘۔’’ امیر کیسے ہوسکتے ہیں‘‘۔’’ چوٹی پر پہنچ کر قائم رہنا‘‘۔’’ سودے بازی کا فن‘‘۔’’ واپسی کا فن۔‘‘
یہ فہرست بہت طویل ہے۔ آپ گوگل پر جاکر دیکھ سکتے ہیں۔ دیکھنا بھی چاہئے کہ ہم نے 4سال ان کی حکمرانی صرف امریکہ پر ہی نہیں پوری دنیا پر برداشت کرنا ہے۔ 2016 کی حکومت سے پہلے 2015میں ان کی تصنیف تھی۔ Crippled America- How to make America Great Again۔ 2016سے 2020 تک وہ امریکہ کی عظمت واپس لاسکے یا نہیں۔ اکثریت کی رائے نفی میں ہے۔ 2020 کا الیکشن ہارنے کے بعد 2021 میں ان کی کتاب آئی۔ Our Journey Together۔ اب 2024 کے الیکشن سے پہلے Save America۔ ‘‘امریکہ کو بچائو‘‘ ۔ ہمارے ہاں بھی نعرے لگتے آئے ہیں۔’’کون بچائے گا پاکستان‘‘۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور ایک دوسرے سے سیکھنے کا دن۔ وہ نئے امریکی صدر کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔ پاکستان کے حالیہ انتخابی نتیجے کے تناظر میں وہ پوچھیں گے کہ کیا وہاں بھی فارم 45۔ اور 47ہوتا ہے۔ کیا وہاں بھی الیکشن کمیشن نتائج بدل سکتا ہے۔ پورے امریکی الیکشن میں چیف الیکشن کمشنر کا نام کہیں آیا ۔ نہ چیف جسٹس کا ۔ آپ کو بہت سوچ سمجھ کر جواب دینا ہوں گے۔ ملکی سلامتی کا سوال ہے۔میری گزارش ہوتی ہے کہ اتوار کو نماز عصر کے بعد اپنے محلے والوں سے تبادلہ خیال کریں۔ کوئی بیمار ہے تو عیادت کریں۔ بہت سے ایسے مسائل ہیں جو محلے داری میں ہی حل ہوسکتے ہیں۔ کوشش کریں کہ آپ کا گھر مستحکم ہو۔ آپ کا محلہ مستحکم ہو۔ پھر شہر اور ملک خود ہی مستحکم ہوجائے گا۔ فاتح امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں مزید باتیں کرتے ہیں۔ لیکن ایک خوشگوار صبح کا ذکر اس سے پہلے ضروری ہے۔ جب ہم کارساز میں پاکستان نیوی انجینئرنگ کالج کی بزم ادب کے زیر اہتمام بیت بازی کے مقابلے میں منصفی کے لیے طلبہ اور طالبات کے درمیان تھے۔ سفید یونیفارم میں ہمارا مستقبل ہمارے سامنے تھا۔ خوشی یہ ہوئی کہ اسمارٹ فون سے چپکی نئی نسل اشعار سے رغبت رکھتی ہے۔ اچھے شعر پر تالیاں بھی بہت دل سے بجاتی ہے۔ محبت والے اشعار تھے یا مزاحمت والے جن پر زیادہ شور مچا۔ ہمارے ساتھ مقبول شاعر جاوید صبا بھی منصف ہیں۔ صدف بنت اظہار اپنے والد اظہار حیدر کی نثر۔ اور شاعری کو محفوظ کرنے میں کامیابی سے سفر طے کررہی ہیں۔ ان کے مشورے سے ہی ہمیں اس تقریب میں بلایا گیا ہے۔ پاکستان بحریہ سے ہمارا بھی بہت قریبی تعلق ہے۔ جھنگ سے احمد تسنیم وائس ایڈمرل کے عہدے تک پہنچے۔ ہنگور آبدوز کے ذریعے انہوں نے انڈین جہاز کو غرق آب کیا تھا۔
سمندر تو شاعروں کو نہ جانے کتنی غزلیں نظمیں اور نثر نگاری کو کتنے ناول دیتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو حسین ترین طویل ساحل سے نوازا ہے۔ شاعری انسان کی قدیم ترین سہیلی ہے۔ انسان زندگی میں ایک بار عشق ضرور کرتا ہے۔ عشق کا اظہار شاعری میں۔ عشق کبھی رکتا ہے نہ شاعری۔ہم طلبہ و طالبات سے یہی گزارش کررہے ہیں کہ آپ شعر سوشل میڈیا کی بجائے براہ راست کتابوں سے پڑھیں ۔ سوشل میڈیا پر تو شاعری کو بھی تاریخ کی طرح مسخ کیا جارہا ہے۔ شاعری ہماری انسانی تہذیب کا ایک جزو لازم ہے۔ اس لیے اس کی ادائیگی بھی تمدن کا ایک ضروری حصہ ہے۔ نئی نسل کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع دے کر اس بزم کی سیرین عاطف۔ اولڈ راوین لیفٹیننٹ گھمن۔ لیفٹیننٹ فیضان۔ کپتان ذوالفقار احمد خان۔ سب لیفٹیننٹ عمار۔ یہ سب ہماری ممنونیت کے حقدار ہیں۔
اب آئیں پھر وائٹ ہائوس کی طرف ۔ ہمارا یہاں جانا 1974 سے ہورہا ہے۔20 جنوری سے ٹرمپ کا دوسرا صدارتی دَور شروع ہونا ہے۔ جو یقینا پہلے دور سے بہت مختلف ہوگا۔ درد مند۔ سنجیدہ پاکستانیوں کویہ جاننا چاہئے کہ امریکہ کے عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اتنی بھاری اکثریت سے کامیاب کیوں کیا ہے۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کی کشش ہے۔ یا جوبائیڈن کی ناکام صدارت سے بیزاری۔ سیاسی تاریخ میں یہ منفی مقبولیت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں ہم اس کا مشاہدہ 2022 سے کررہے ہیں۔ کسی دوسرے سیاسی گروہوں سے مایوسی۔ ان کی خراب کارکردگی سے اکتاہٹ۔ کسی نئے گروہ کے لیے عشق کی حد تک حمایت کی بنیاد بھی بن جاتی ہے۔ امریکی تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ امریکہ میں عورت کی حکمرانی میں سب سے مضبوط رکاوٹ بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہی رہے ہیں۔
کیا ہم ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ فلسطین میں بہنے والی خون کی ندیاں روکیں گے۔ یوکرین کی جنگ کا دائرہ نہیں پھیلنے دیں گےتاریخ نے انتہائی اہم موڑ پر انہیں وائٹ ہائوس سونپا ہے۔ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں پیدا ہونے والی امریکی نسل کیلئے یہ آخری موقع ہے کہ وہ امریکہ کو اپنے لڑکپن والی عظمت رفتہ واپس دلاسکیں۔ اور چھوٹی قوموں۔ نئی جمہوریتوں کیلئے خوشحالی کا پیغام لائیں نہ کہ وہاں کی منتخب حکومتوں کے تختے الٹنے۔ مقبول رہنمائوں کی حراستوں اور ہلاکتوں کی سرپرست بنیں۔