پیغام اقبال … تحریر : پروفیسر نعیم اقبال


آج شاعر مشرق، مصور پاکستان حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے ولادت کا مبارک دن ہے۔ آپ کاتصور پاکستان کے خالق کی حیثیت سے تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنی عملی کاوشوں اور فلسفیانہ شاعری اور خطبات کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور انہیں ایک روشن مستقبل کی امید دلائی ۔علامہ اقبال کی شاعری میں ایک مقصدیت پائی جاتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کی شاعری بے ساختگی، دل نوازی، فکری معنویت، دل کشی، جذبات کے زیرو بم اور حسن و جمال سے آراستہ ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری زندہ شاعری ہے ۔ قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے اقبال کا پیغام ہے کہ عشق محمدۖ میں ڈوب کر سرکار دو عالم کی اطاعت گزاری اور اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے سے انسان پستی سے نکل کر بلندی پر پہنچ جائے گا۔ اس لیے مسلمانوں پر فرض ہے کہ پیغام رسالت کو ساری میں دنیا عام کر یں۔ اقبال کے فلسفہ خودی سے مراد خود آگہی ہے۔ خودی کو پروان چڑھا نے میں جس جذبے کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے وہ “عشق” ہے۔ عشق ہی وہ واحد جذبہ ہے جو انسان کے اندر زندگی کی حرارت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اور اس کو متحرک رکھتا ہے اور منزل کے حصول کے لیے مہمیز بنتا ہے۔ اقبال کے تصور خودی کو تصور عشق سے الگ کر کے پرکھنا ممکن نہیں ہے ۔ خودی کے تینوں مراحل اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الہی کے دوران جو شے اسے آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے وہ “عشق” کا جذبہ محرکہ ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق کا تصور بے حد وسیع مفاہیم کا مظہر ہے ۔ عشق دم جبریل، عشقِ دل مصطفی عشق خدا کا، رسول عشق کا کلام صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی جب انسان اپنے اندر جذبہ عشق کی شمع روشن کر لیتا ہے تو وہ خودی کے مراحل طے کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں پہنچنے والے کو اقبال “مرد مومن” کا نام دیتا ہے۔ مرد مومن وہ انسان ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اطاعت گزاری میں بے لوث اور بے غرض ہو کر حق و صداقت کا پرچم بلند کیے رکھتا ہے۔ وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ یقین اور توکل کی بدولت وہ حق گوئی اور بیباکی کا علمبردار بن کر باطل کو للکارتا ہے۔ اس کی نظر اللہ تعالی کی روشنی بن کر انسانوں کے قلب و روح کو خیرہ کر دیتی ہے ۔ایسا ہی رہنما کسی قوم کو منزل مراد پر پہنچا کر دم لیتا ہے۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اسکے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں اقبال کو نوجوان نسل سے بے حد محبت تھی اس لیے وہ ان کے لیے “شاہین” کا استعارہ استعمال کرتے ہیں۔ اقبال شاہین کو ایک بلند پرواز، بے نیاز، غیر ت مند، تیز نگاہ اور خلوت نشین پرندے کی حیثیت سے بہت پسند کرتے ہیں۔ اقبال نوجوانوں میں شاہین کی صفات کا پر تو دیکھنے کے متمنی ہیں تاکہ وہ معاشرے میں بہتر فرد بن کر اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اقبال نے تصور وطنیت سے ہٹ کر اسلام کی وطنیت کا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق وطن محض جغرافیائی اصطلاح نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان چاہے وہ دنیا میں کسی بھی ملک میں رہتا ہے، کوئی بھی زبان بولتا ہے، کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہے وہ ایک قوم سے تعلق رکھتا کیونکہ ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب پر ایمان رکھتا ہے علامہ اقبال کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیں تو 1930 میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے جو خطبہ پیش کیا وہ دو قومی نظریہ کی بنیاد بنا اور پاکستان کی تحریک آزادی میں خطبہ الہ آباد کو میگنا کارٹا کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ وہ تاریخی دستاویز ہے جس نے ہندوستان میں ایک آزاد اور الگ مسلم مملکت کے قیام کی نظریاتی، دستوری اور عملی بنیاد یں فراہم کیں۔ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں بغیر کسی کنفیوژن کے ہندووں، مسلمانوں اور انگریزوں پر واضح کیا “ہندوستان میں ایک متوازن اور ہم آہنگ قوم کی نشوونما کے لیے مختلف ملتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی قوم آباد ہو، وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہو، اسکی زبان بھی ایک ہو _ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل، زبان، مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان کے اعمال و افعال میں وہ احساس پیدا نہیں ہو سکتا ہے جو ایک ہی نسل کے کے مختلف افراد میں موجود رہتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں کوئی واحد الجنس قوم نہیں ہے پس یہ امر کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے کہ کہ مختلف ملتوں کے وجود کا خیال کیے بغیر ہندوستان میں مغربی اصول جمہوریت پر عمل کرنا شروع کر دیا جائے لہذا مسلمانوں کا مطالبہ بالکل جائز ہے کہ ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خود مختاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخرکار ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی ” اقبال نے جو خواب دیکھا اور جس کی پیش گوئی کی وہ قیام پاکستان کی صورت میں پوری ہوئی ۔ یہ عظیم مفکر اور قومی شاعر 1938 میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا مگر اس کے خواب کی تعبیر قائد اعظم کے ہاتھوں ہوئی۔جس ریاست کا تصور اقبال نے پیش کیا وہ عملا ہم نہ قائم کر سکے پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بننا تھا مگر یہ ایک سیکورٹی سٹیٹ بن گئی۔ بظاہر پاکستان ایک معاشرہ ہے لیکن اس میں متعدد حوالوں سے کئی معاشرے آباد ہیں ایک نام نہاد ایلیٹ طبقہ ججز، سیاست دانوں ،جاگیرداروں اور کاروباری افراد پر مشتمل ہے ۔ان طبقات کا وسائل پر قبضہ ہے ۔ اس پاکستان کا خواب تو اقبال نے نہیں دیکھا تھا جہاں اس کے شاہین بے برگ وپر ہوں جہاں عدل و انصاف، جمہوریت اور انسانی حقوق کی پامالی عام ہو۔

بشکریہ روزنامہ 92