باغ (صباح نیوز) نائب امیر جماعتِ اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دئیے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لائے جاسکتے۔ جب تک مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت 5 اگست 2019 سے پہلے والی پوزیشن پر بحال نہیں ہوتی، اس وقت تک بھارت کیساتھ تجارت، تعلقات کی بحالی کی باتیں بانیانِ پاکستان کے دیرینہ اصولی موقف سے روگردانی اور کشمیری شہدا کے خون سے غداری ہوگی۔ بانی پاکستان قائد اعظم علیہ الرحمہ کا یہ قول کہ ”کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے” ہماری کشمیر پالیسی کا محور ہونا چاہیے۔
اِن خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد کشمیر (باغ)میں بار کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سابق امیر جماعتِ اسلامی آزاد جموں و کشمیر و سابق ممبر آزاد کشمیر اسمبلی عبدالرشید ترابی، قائم مقام امیر جماعتِ اسلامی ضلع باغ میجر تصور، مقامی ذمہ داران و کارکنان سمیت عوام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ 27 اکتوبر – یومِ سیاہ کے حوالے سے لیاقت بلوچ نے کہا کہ 27اکتوبر 1948 وہ منحوس دن تھا جب کشمیر میں بھارت کی مسلح افواج داخل ہوئیں اور ریاست جموں و کشمیر کے بڑے علاقے پر غیر قانونی اور غاصبانہ قبضہ کرلیا، اس دن کی مناسبت سے پوری دنیا میں 27 اکتوبر کو یومِ سیاہ منایا جاتا ہے، اس وقت 9 لاکھ سے زائد بھارتی افواج کے مظالم کا سامنا کرتے کشمیری عوام حق خودارادیت کے حصول کے لئے جدوجہد کررہے ہیں، اس جدوجہد میں پوری پاکستانی قوم ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ ہے، ہم انشااللہ! خون کے آخری قطرے تک اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی سیاسی، اخلاقی، سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے قیامِ پاکستان کے بعد اس کے ساتھ ہمسائیہ دوست ملک کی حیثیت سے رہنے، اس کی آزادی و خود مختاری کو تسلیم کرنے اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے بجائے دانستہ طور پر کشمیر کا مسئلہ پیدا کر کے بگاڑ کی بنیاد رکھی ، اس بگاڑ کی بنیادی وجہ ایک سوچ ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان نے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو کاری ضرب لگائی ہے، اسی لئے بھارت کی انتہا پسند ہندو قیادت نے پاکستان کے ساتھ دشمنی کی بنیاد رکھی۔ اِسی لیے پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر انگوٹھا رکھ کر وہ پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے اور اسے لق و دق صحرا میں تبدیل کرنے کی سازش تیار کی، یہ سازش وہ کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریاں کا پانی روک کر ہی بروئے کار لاسکتا تھا، چنانچہ اس نے مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق قبول کرنے کے بجائے اسے متنازع بنا دیا اور تصفیہ کے لئے یواین سلامتی کونسل میں جا پہنچا تاہم سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کرانے کی ہدایت کی۔ بھارت نے اس کے برعکس مقبوضہ وادی پر اپنا تسلط مستقل کرلیا اور بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی گردان شروع کر دی جس کے بعد کشمیری عوام نے مزاحمت اور بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کردیا۔
صحافی کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے شروع دن سے ہی اصولی موقف اختیار کیا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دے کر مسئلہ کشمیر حل کیا جائے جبکہ بھارت گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے کشمیر پر نہ صرف اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر قائم ہے بلکہ اس نے 5 اگست 2019 کو بھارتی آئین سے مقبوضہ وادی کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والی دفعات 370، اور 35 اے کو نکال کر اسے جموں اور لداخ میں تقسیم کیا، پھر انہیں باقاعدہ بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنالیا۔ کشمیر پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ کشمیر بھارت کا ہرگز حصہ نہیں، اور نہ ہی اس کا اٹوٹ انگ ہے ۔انہوںنے کہا کہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ اور عرصہ دراز سے حل طلب مسئلہ ہے، جس کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا ہے، چنانچہ عالمی برادری اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے کردار ادا کرے۔ پاک، بھارت تعلقات میں تنا کی بنیادی وجہ ہی مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت اگر پاکستان کیساتھ واقعی سازگار تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے تو اسے اپنے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے اقوامِ متحدہ میں خود جاکر پوری دنیا کے سامنے کشمیر میں استصوابِ رائے کرانے کے وعدے پر عمل کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ وادی آج بھی بھارتی فوج کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کرکے کشمیری عوام کو محصور اور انہیں ہر قسم کی بنیادی سہولتوں سے محروم کررکھا ہے۔ ا س کے باوجود کشمیری عوام بھارتی فوج کے ظلم و ستم کی مزاحمت کرکے اور اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر جدوجہد آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے جذبہ سے سرشار ہیں۔
اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کررہے ہیں، کشمیریوں کی نسل کشی پر سکوت اور بھارت سے دوستی کی باتیں ناقابلِ قبول ہیں، بھارت کی ہٹ دھرمی اور مقبوضہ وادی میں پیدا کی گئی خوف و دہشت کی فضا میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحالی کی بات کرنا کشمیری عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے، ان کی جدوجہد آزادی کا سفر کھوٹا کرنے، شہدا کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کرنے اور کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ، اصولی اور دوٹوک موقف کو غارت کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مسئلہ کشمیر پر نِت نئے فارمولے پیش کرنے کی بجائے حکومتِ پاکستان کشمیر کی جدوجہد آزادی کو سفارتی محاذ پر بہتر انداز میں سپورٹ کرنے کے لئے نائب وزیر خارجہ کا تقرر کرے ،مسئلہ کشمیر پر متفقہ قومی موقف جاننے کے لئے قومی فلسطین کانفرنس کی طرز پر آل پارٹیز قومی کشمیر کانفرنس بلائے اور باہمی مشاورت سے ایک متفقہ قومی کشمیر پالیسی کا اعلان کرے۔