نجکاری یا سرکاری ملکیت!! … تحریر : سہیل وڑائچ


آج کا دور نج کاری کا ہے۔ بزنس کی سرکاری ملکیت کے تصور کو اب فرسودہ تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی قومیائے گئے اداروں کی تیزی سے نجکاری کی جا رہی ہے، دنیا بھر میں اس فیشن کے برعکس برطانیہ میں نئی برسراقتدار لیبر پارٹی نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ پرائیوٹائزکی گئی ٹرینوں کو دوبارہ سے قومیانے (RE-NATIONALISE) کا ارادہ رکھتی ہے۔ برطانیہ میں اس وقت ٹرانسپورٹ کے کرائے سارے یورپ کی نسبت زیادہ ہیں،لیبر پارٹی کے عمائدین سے اس حوالے سے معاملہ سمجھنے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ ریل نیٹ ورک یعنی پٹڑی اور اس کی تعمیر و مرمت تو حکومت کے پاس ہے لیکن ٹرینیں نجی شعبہ چلا رہا ہے، ان کے بقول نجی شعبہ دھڑا دھڑ پیسہ کما رہا ہے مگر نئی سرمایہ کاری نہیں کر رہا۔ آپس میں مسابقت کی بجائے اندر خانے معاملت کر لی جاتی ہے اسی لئے لیبر پارٹی کچھ ٹرینیں قومیائے گی تاکہ پرائیویٹ شعبہ من مانی نہ کر سکے۔ سرمایہ دارانہ نظام بہت سی خوبیوں سے مالا مال ہے دنیا میں اسے کامیابی بھی بہت ملی ہے مگر اس کے اندر بہت بڑی بڑی خرابیاں بھی ہیں ،جن میں سے ایک برطانیہ میں ٹرین کے مہنگے ترین کرایوں کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے اور وہاں کی نئی حکومت کو نج کاری کو مسترد کرکے سرکاری ملکیت کی طرف آنا پڑ رہا ہے کیونکہ ریاست کا بنیادی مقصد تو عوامی فلاح ہوتا ہے چاہے وہ نج کاری سے ہو یا سرکاری ملکیت سے۔

60اور 70کی دہائی میں دنیا بھر میں صنعتوں کو قومیانے کا رجحان رہا، پاکستان میں بھی بڑی صنعتیں، بینک اور کئی تجارتی ادارے قومیا لئے گئے جس سے پرائیویٹ بزنس کو شدید نقصان ہوا، قومیائے گئے ادارے بھی تباہ ہو گئے ابھرتی ہوئی اشرافیہ اور نئی تشکیل شدہ مڈل کلاس ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئی مگر دوسری طرف سرکاری ملکیت میں آنے سے چینی اور آٹے کا ریٹ کنٹرول ہوگیا، چیزوں کی کمیابی پر قابو پایا گیا، سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کی لوٹ کھسوٹ اور استحصال کا خاتمہ ہوا تاہم مجموعی طور پر سرکاری ملکیت کا فیصلہ معیشت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا چنانچہ 80کی دہائی کے بعد سے نجکاری شروع ہوگئی اور ابھی تک جاری و ساری ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں نجی شعبہ ہی اہم ترین کردار ادا کرتا ہے تاہم نجی شعبے کے اوپر سرکاری کنٹرول اور توازن نہ رکھا جائے تو ناجائز منافع خوری اور استحصال شروع ہو جاتا ہے، اس کی تازہ ترین مثال شوگر مل اونرز کے دباؤ پر چینی کی برآمد کا فیصلہ ہے،پنجاب کے سیکرٹری خوراک اور کین کمشنر نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور موقف اختیار کیا کہ یہ برآمد کی گئی تو چینی کی قیمت میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوگا، مل اونرز کو اربوں کا فائدہ ہوگااور عوام پر ناجائز بوجھ پڑے گا مگر نجی شعبہ اتنا مضبوط ہے کہ نہ صرف اس نے برآمد کے حق میں فیصلہ کروا لیا بلکہ صوبائی سیکرٹری خوراک اور کین کمشنر پنجاب کو سچ بولنے کی پاداش میں افسران بکار خاص بنا دیا گیا۔ تحریک انصاف کے زمانے کی حکومت میں بھی شوگر سکینڈل سامنے آیا تھا پھر انکوائریاں ہوئیں تو اور بہت کچھ بھی سامنے آیا تھا، اب بھی اگر کوئی بحران آیا تو حکومت کو اس کا سیاسی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ بدقسمتی سے شوگر مل اونرز کی یہی اجارہ داری بھارت کے صوبہ مہا راشٹر میں بھی ہے، آج ہی کے نیویارک ٹائمز نے ان کے استحصال پر صفحہ اول پر پوری تفصیل شائع کی ہے امریکہ کا شوگر مافیا بھی بہت مشہور ہے اس پر تو کئی ہالی وڈ فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

پاکستان میں سیمنٹ انڈسٹری کی نجکاری کئی گئی اس سے ریاست بوجھ سے آزاد ہوئی صنعت نے بھی ترقی کی جدید مشینری لگی، سیمنٹ ایکسپورٹ بھی ہوا مگر اس میں بھی ملوں نے ملی بھگت سے اجارہ داری یا مناپلی قائم کرلی ہے آپس میں مل کر پیداوار کم کر دیتے ہیں، مسابقت کا ماحول نہیں ، ملی بھگت چل رہی ہے جب چاہتے ہیں سیمنٹ کا ریٹ من مرضی سے بڑھا دیتے ہیں حکومت کا مسابقتی کمیشن اور کنٹرول کرنے والے ادارے سیمنٹ کارٹل کی نسبت بہت ہی کمزور ہیں عوام کے مفاد کا کوئی خیال نہیں رکھ رہا۔ امریکہ کے اندر کارٹل بنانے اور اجارہ داری قائم کرنے کے بارے میں قوانین 1920 کی دہائی میں ہی بن گئے تھے مگر پاکستان میں اس کا موثر تدارک نہیں ہے۔ اسی طرح بینک نجی تحویل میں دینے سے حکومت کا درد سر تو ختم ہوا لیکن اس وقت بینک ملک میں سب سے زیادہ منافع کما رہے ہیں نہ عوام کو قرضے دے رہے ہیں نہ کوئی اور سہولت۔ اکثر بینک مالکان بیرون ملک مقیم ہیں ان کا منافع انہیں باہر بیٹھے ہی موصول ہو جاتا ہے وہ ذرہ برابر رسک نہیں لیتے ہیں نہ انہیں ملک میں کاروبار کی بڑھوتری کی کوئی فکر ہے۔ حکومت کو مہنگی شرح سود پر قرضے دیتے ہیں اور عیاشی کرتے ہیں کیا اسٹیٹ بینک کا فرض نہیں کہ بینکوں کو عام کاروباری کی فلاح کیلئے مجبور کرے۔

اسی طرح ہم نے منافع بخش ادارہ ٹیلی کام خلیج کی ایک کمپنی کو فروخت کردیا اب صورتحال یہ ہے کہ اس کمپنی نے اس شعبے میں سرے سے نئی سرمایہ کاری ہی نہیں کی ،ایک زمانے میں ہم اس شعبے میں دنیا کے جدید ترین ممالک کے ہم پلہ تھے اب انٹرنیٹ وغیرہ میں ہم بہت پیچھے چلے گئے ہیں نجی ادارے منافع کمانے میں دلچسپی تو رکھتے ہیں لیکن یہ نئی ٹیکنالوجی لاتے ہیں نہ ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور یوں وہ شعبہ زوال کی طرف جانا شروع ہو جاتا ہے۔

آج کل ہم قومی فضائی کمپنی پی آئی اے اور پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کے بارے میں بہت متحرک ہیں، ہمیں ماضی کے تجربوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں، کسی نئی اجارہ داری یا کارٹل کو جنم نہیں دینا چاہیے اور صارفین کے مفاد کو مقدم رکھنا چاہیے۔

یہ درست ہے کہ حکومت کا کام خود بزنس کرنا نہیں لیکن حکومت کا کام اجارہ دار، منافع خور کاروباریوں کو فری ہینڈ دینا بھی نہیں ہے ، نجی شعبہ کی آزادی اور منافع کے اوپر عوامی مفادات کے تحفظ کا کنٹرول لازم ہے، سرمایہ داری نظام اور مارکیٹ اکانومی کو دنیا میں سوشلزم اور کمیونزم کے مقابلے میں فتح حاصل ہو چکی ہے مگر اب بھی دنیا کا بہترین نظام سکینڈے نیویا کا ہی تصور ہوتا ہے جس کو سوشل ڈیموکریسی کا نام دیا جاتا ہے، محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے منشور میں اسی نظام کو شامل کیا تھا ہمیں بھی نجکاری کرتے ہوئے ایسی شرائط رکھنی چاہئیں جن سے ایک تو ان شعبوں میں نئی سرمایہ کاری آئے اور دوسرے ناجائز منافع خوری نہ ہو۔ میریعلم میں آیا ہے کہ یورپ کی کئی ایئر لائنز اپنے چھوٹے ہوائی جہاز پاکستان میں چلانے میں دلچسپی لے رہی ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور پی آئی اے بھی اس کمپنی کو دینی چاہیے جو نئے جہاز خریدے اپنی سروس کا معیار بین الاقوامی کرے اور کرائے بھی نہ بڑھائے۔ پیپلز پارٹی نے نجی اور سرکاری شعبے کی شراکت سے سڑکوں کی تعمیر اور نئی سرمایہ کاری کا جو منصوبہ بنایا ہے اس کو پورے ملک میں رائج ہونا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ