نئی دہلی میں بی جے پی مقبوضہ جموں وکشمیر کی نئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرے گی

 سری نگر(صباح نیوز) نئی دہلی میں بی جے پی مقبوضہ جموں وکشمیر کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرے گی ۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں انتخابات میں ناکامی پر نئی دہلی کی بی جے پی حکومت   سیاسی ، معاشی ، انتظامی مسائل کے ساتھ ساتھ اندرونی خودمختاری بحال کرنے کی قرارداد نظر انداز کرے گی برطانیہ میں مقیم کشمیری خاتون صحافی  نعیمہ احمد مجہور نے نیشنل کانفرنس کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر کی نئی حکومت  کی مشکلات کا احاطہ کیا ہے ۔ ، انڈپینڈنٹ اردو میں اپنے مضمون میں نعیمہ احمد مجہور نے لکھا ہے کہ مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے، جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ حاصل کرنے، مقامی باشندوں کے لیے حق اراضی یا حق روزگار بحال کرنے میں دشواری پیدا ہوسکتی ہے، پھر خطے کی انتظامیہ، پولیس اور عدلیہ کے اعلی عہدوں پر غیر کشمیری تعینات کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام اور انتظامیہ کے بیچ روابط نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کو کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے۔

یہ نیشنل کانفرنس کی سرکار کے لیے سب سے بڑا چلینج ہے جس کا ادراک نئی دہلی میں مقامی جماعت آپ کے سربراہ اروند کیجریوال کو بخوبی ہوا ہے اور وہ اس کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔مقامی حکومت کے لیے بڑا امتحان اس وقت شروع ہوگا جب وہ اندرونی خودمختاری بحال کرنے کی قرارداد اسمبلی سے پاس کراکے بی جے پی کی مرکزی سرکار کو نظر ثانی کے لیے بھیجے گی جہاں سے کسی حمایت کی کوئی توقع نہیں ہے۔مگر نیشنل کانفرنس کی اتحادی جماعت کانگریس اس وقت کون سا رخ اختیار کرے گی اس کے بارے میں عوام میں خاصی تشویش ہے۔ کانگریس نے آج تک بار بار پوچھے جانے والے اس سوال کا جواب نہیں دیا ہے۔بقول تجزیہ نگار عوام نے اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف اپنا ریفرینڈم دیا ہے اب یہ نیشنل کانفرنس پر منحصر ہے کہ وہ اس کو بحال کرانے کا عمل  کیسے انجام دیتی ہے۔

نعیمہ احمد مجہور نے  لکھا ہے کہ اس بار لوگوں نے جمہوری طریقہ اختیار کرکے نہ صرف بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی کو شکست دی بلکہ ایک ریفرنڈم سمجھ کر پانچ اگست 2019 کی اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف ایک زبان میں اس پرانی پارٹی کو جتوایا جس کو بی جے پی نے سیاسی جماعتوں کی فہرست سے نابود کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔عوام نے ووٹ کے ذریعے باور کرایا کہ جموں و کشمیر میں صرف وہی پارٹی جیت سکتی ہے جو ان کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہو اور ان کو جاگیر سمجھ کر ان پر دھونس دباو نہیں جما سکتی۔میڈیا ہو، تجزیہ نگار ہوں یا تھنک ٹیکنس، سب ہی نے اس بات پر یک زبان ہوکر کشمیری ووٹروں کی تعریف کی کہ انہوں  نے حالیہ انتخابات میں بے حد سنجیدگی، سوجھ بوجھ اور بردباری کا مظاہرہ کیا جب انہوں نے بی جے پی کو ہرا کر نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد کو حکومت سازی کے لیے کامیابی سے ہمکنار کردیا۔

اگرچہ اتحاد میں شامل دو جماعتوں کے انتخابی منشور میں آرٹیکل 370 کے بارے میں مختلف آرا ہیں پھر بھی خطے کی آئینی مراعات اور اس کے حقوق چھیننے پر ووٹ دے کر بی جے پی کو سزا سنائی۔اتنا ہی نہیں بلکہ ووٹروں نے ایسی جماعتوں اور امیدواروں کو بھی سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ بی جے پی کی اے ٹیم یا بی ٹیم ہیں۔محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی، الطاف بخاری کی اپنی پارٹی، انجینیئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس کے لیے یہ انتخابات خفت کا باعث بنے حالاں کہ انتخابی مہم کے آخری مراحل میں انہوں نے آرٹیکل 370 کو بحال کرنے کا نعرہ بھی لگا دیا تھا۔