مشکل ہے : تحریر محمد اظہر حفیظ


میرے ابا جی بننا بہت مشکل ہے ۔ میں چون سال سے کوشش کررہا ہوں کہ ان جیسا ہی بن جاؤں ۔ اکثر تھک کر ہار ماننے کا سوچتا ہوں پھر خیال آتا ہے میرے ابا جی کیا سوچیں گے۔ میرے ابا جی کی جیب میں پیسے کتنے ہوتے تھے مجھے نہیں پتہ پر کتنی ترتیب سے ہوتے تھے میں نے کسی اور پاس نہیں دیکھے۔ وہ سب طرح کے روپیوں کو الگ الگ فولڈ کرکے رکھتے تھے۔ ہزار، پانچ سو، سو، پچاس، بیس، دس، پانچ روپے اب اگر میں ان سے کہتا ہوں ابا جی مجھے سات ہزار نوسو ستر روپے چاہیں وہ اپنی دائیں جیب میں ہاتھ ڈالتے اور جیب کے اندر ہی پیسے گن کر باہر نکالتے اورپکڑا دیتے۔ میرا ان کا 45 سال کا ساتھ رہا کبھی گنتی غلط نہیں دیکھی ۔
وہ گھر میں دھوتی اور بازو والی بنیان پہنتے تھے۔ آج سمجھ آتی ہے کہ دونوں کی جیب نہیں ہوتی۔
وہ قمیض میں پیسے نہیں رہنے دیتے تھے۔ وہ پہلے قمیض کی جیب سے پیسے نکال کر انگھیٹی پر رکھتے تھے پھر قمیض اتارتے تھے۔ انکا ہم پر اعتماد تھا اور ہم نے بھی کبھی انکے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی تھی۔ روزانہ نہانا، کپڑے تبدیل کرنا انکا معمول تھا۔ جو اب ہم دونوں بھائی بھی فالو کرتے ہیں۔ غصے کے بہت سخت تھے ۔ ہمارے ساتھ ساتھ کسی دوسرے بچے کی بھی غلطی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اکثر جب ہم مری روڈ پر رش میں جارہے ہوتے تھے تو اگر کوئی پنڈی بوائے زگ زیگ بائیک چلاتا نظر اجائے تو ابا جی کا حکم ہوتا صاحب اس نوں روک ۔ میں اس کی بائیک کو روکتا ابا جی اسکی سات نسلوں کی تربیت کرکے ہی آگے چلتے۔ ایک دفعہ میرے دوست آصف شاہ جی بھی گاڑی میں ساتھ تھے۔ امی نے درخواست کی کہ خیال کرنا اظہر کا دوست ساتھ ہے۔ مری روڈ پر پہنچے کبھی وہ دروازے کا شیشہ نیچے کرتے کبھی اوپر بار بار یہ عمل دھرا رہے تھے۔ پھر کہنے لگے یار صاحب گاڑی سائیڈ پر روک مجھے اتار دے تسی تے شاہ صاحب جاؤ میں آجاواں گا۔ آصف شاہ جی اباجی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ قہقہہ لگا کر کہنے لگے چاچا جی تسی تسلی کراؤ سب دی میرے ول دھیان نہ کرو۔ اس کے بعد سفر شروع ہوا اور ابا جی نے سکون محسوس کیا۔ تربیت ماں باپ سے شروع ہوکر دادا دادی تک تو کم از کم جاتی ہی تھی۔ کیونکہ تربیت نسلوں کی ہوتی ہے نسل کی نہیں۔ ابا جی گاڑی بہت کم چلاتے تھے لیکن ڈرائیور کی موجودگی کے باوجود چلا وہی رہے ہوتے تھے اس کی مثال دے کر واضع کرتا چلوں۔ چاچا عبد القادر ابا جی ساتھ ڈرائیور کی ڈیوٹی کرتے تھے مجھے ایک دن محسوس ہوا چاچا جی کی نظر کافی کمزور ہے۔ میں نے کہا چاچا جی آپکو عینک بنوا دوں۔ چاچا عبد القادر کہنے لگے چھوٹے میاں صاحب میں ویکھ کے کی کرنا اے۔ گڈی تے میاں صاحب چلاندے نے۔ قادر بریک، قادر کھیچ کے رکھ ، قادر ریس دے تے کھبیو کڈ، قادر ویکھ کے۔ اسی تے عمل ہی کرنا ہوندا اے۔اسی ویکھ کے کی کرنا۔ اسی طرح وہ ہمارے ساتھ کرتے تھے۔ اگر وہ گاڑی چلاتے تو یقیناً ریسنگ کار کے ڈرائیور ہوتے۔
بڑے بھائی بہت محتاط گاڑی چلاتے ہیں او یار ٹور لے ہن تے ٹرک وی تیرے توں اگے نکلی جارہے نے۔ اور مجھے صاحب تھوڑی ہور کھچ ابا جی موٹروے کی سپیڈ لمٹ 120 ہے یار تو کھچ میں جرمانہ دیاں گا۔ بس کمنٹری چلتی رہتی تھی۔
ہمیں کبھی ویگن میں سفر کرنے نہیں دیا۔ جب میں پہلے دن کالج گیا تو اباجی نے مجھے نیا موٹر سائیکل لے کردیا اور جب نیشنل کالج آف آرٹس لاہور گیا تو ابا جی نے مجھے گاڑی لیکر دی جو سترہ سال میرے پاس رہی۔ انکی کوشش تھی کہ بچوں کو کسی قسم کی زندگی میں کمی نہ رہے۔ ہر سہولت لیکر دیتے تھے۔
انتقال سے کچھ گھنٹے پہلے جب بہن پہنچی تو انھوں نے اپنی گھڑی اتار کر سائیڈ پر رکھ دی۔ اور جیب سے ترتیب شدہ پیسے نکالے اور بہن کو دے دئیے اس نے کہا ابا جی کی گل اے کہنے لگے ہن میں کی کرنے نے۔ مجھے ایک دن کہنے لگے یار صاحب توں کدی میرے کولوں کجھ نئیں منگیا دس میرا پتر کی چاہی دا اے۔ ابا جی سب کچھ تے بغیر منگیوں مل جاندا اے کی منگاں۔ دس میرا صاحب پتر۔ میں نے کہا ابا جی دعا کرو تہاڈی ورگی جیب میری قمیض نوں وی لگ جائے۔ ہنسنے لگے یار صاحب کدی سیدھی گل وی کرلیا کر۔ میرے وسائل اللہ تعالیٰ کے فضل اور والدین کی دعاؤں سے بہت اچھے ہیں پر میرے پاس میرے ابا جی والی جیب اور بڑا دل نہیں ہے۔
وہ بڑے بھائی کی بجائے ہمیشہ مجھے حکم کرتے تھے مجھے جہاں بھی ہوتا فون کرکے بلا لیتے گھر آتا تو بھائی بھی گھر پر ہوتا ایک دن کہا ابا جی بھائی کو کہہ دیتے یار صاحب اے فراڈ آدمی اے کوئی وی گل سیدھی نہیں کردا اور ساتھ مسکراتے جاتے۔
جون میں بجٹ آنے سے پہلے سیگریٹ مارکیٹ سے شارٹ ہو جاتے مجھے فون کیا صاحب کتھے او جی حکم اباجی یار سیگریٹ نہیں مل رہے۔ میں دفتر سے اٹھا ابپارہ، کراچی کمپنی، جناح سپر جہاں سے جتنے سیگریٹ کے پیک ملے لے لیے شاید پندرہ یا سولہ ڈبیاں تھیں۔ گھر آیا انکے حوالے کیں تو باآواز بلند دعائیں دینے لگے جیوندا رہ میرا صاحب پتر، اللہ بلند نصیب کرے، دعاؤں کی آوازیں نیچے تک آرہی تھیں امی جی آج خیر اے انیاں دعاواں تے حج تے وی نئیں کتیاں آج کی ہوگیا۔ میں نے ہنستے ہوئے بتایا سیگریٹ نہیں مل رہے تھے وہ لایا ہوں۔
اکثر میری بیگم جس کو وہ اپنی بیٹی ہی کہتے تھے ۔ بیٹے میری صاحب سے بات کرواؤ ۔ ابا جی موبائل استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ فون ملا دیتی۔ یار صاحب کدوں گھر آنا اے ۔ ابا جی حکم کریں یار باریک والی جلیبیاں اور سموسے لیندے ہوئے آنا جی اچھا جی۔
یار صاحب ودھیا جئی فرائی مچھلی لے کے آئیں۔ 2011 میں امی جی اللہ پاس چلیں گئیں روز صبح فجر پڑھ کر قبرستان جاتے قبر پر کھڑے ہوکر دعا کرتے۔ ایک دن میں ان کو فیصل آباد لے گیا رات کو کہنے لگے یار صاحب واپس چلیے۔ ابا جی تھک جائیں گے صبح چلیں گے۔ امی کو ہمیشہ چوہدری صاحب کہتے تھے۔ کہنے لگے یار چوہدری صاحب انتظار کردے ہون گے فجر ہوگئی تے آئے نہیں پریشان ہوں گے۔ چل چلیے۔ بارش میں میں چھتری لیکر چلتا تو چھتری سے نکل کر بھیگ جاتے میں کہتا ابا جی گیلے ہو جائیں گے یار چوہدری صاحب وی تے کھلے آسمان تھلے پئے نے۔ میں شرمسار ہوں میں کبھی بھی اپنی بیوی کو وہ محبت نہ دے سکا جو میرے اباجی میری امی جی کو دیتے تھے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں۔ زندگی گزر رہی تھی اکتوبر کا مہینہ تھا سن 2015 ابا جی اپنے اللہ پاس چلے گئے۔ انکا صاحب اکیلا رہ گیا جس کی وہ ہر سوچ اور خواہش پوری کرتے تھے جاتے ہوئے اپنی جیسی جیب اس کو دینا بھول گئے۔ میرے ابا جی اور میرے امی جی کیلئےاور سب کے اباجی اور امی جی کیلئے جو اگلے جہاں کے سفر پر چلے گئے ہیں دعاؤں کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ سب کی کامل مغفرت فرمائے آمین ۔
میرے اباجی جیسا اباجی بننا مشکل ہی نہیں بہت مشکل ہے۔
دعاؤں کی درخواست ہے جزاک اللہ خیرا کثیرا