سرکاری ملازمتوں میں سرکاری ملازمین کے بچوں کوترجیح دینا یا ان کے لئے کوٹہ مختص کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں سرکاری ملازمین کے بچوں کوترجیح دینا یا ان کے لئے کوٹہ مختص کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ایسا کرنا میرٹ کی بنیاد پر ملازمتیں دینے کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ٹیکس دہندگان کی محنت سے کمائی گئی رقم سرکاری ملازمین کی تنخواہواں،مراعات اورپنشن کی ادائیگی پر خرچ ہوتی ہے۔ لوگوں کامفاد اس بات میں ہے کہ بہترین افراد کو ملازمت پررکھا جائے نہ ان لوگوں کے ہاتھوں نقصان اٹھائیں جو صرف سرکاری ملازمین کی اولاد ہونے کی وجہ سے بھرتی ہوتے ہیں۔آئین کاآرٹیکل 25کسی بھی قسم کے امتیاز سے روکتا ہے جبکہ سروس آف پاکستان کے اصول کے حوالہ سے آئین کاآرٹیکل 27مزید وضاحت کرتا ہے۔جبکہ چیف جسٹس نے قراردیا ہے کہ خیبرپختونخوا کی جانب سے ملازمین کے کوٹے کے حوالہ سے جاری ہدایات شفافیت اور اچھی حکمرانی کوکمزورکرنے کے مترادف ہے لہذا کے پی حکومت کومشورہ دیا جاتاہے کہ وہ اس طرح کی جاری تمام ہدایات اورنوٹیفکیشنز کوواپس لے۔

چیف جسٹس آ ف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیی کی سربراہی میںجسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 4رکنی لارجر بینچ کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخوا میں سرکاری ملازمتوں میں سرکاری ملازمین کے بچوں کے کوٹے کے حوالہ سے کے پی حکومت کی جانب سے طاہر مشتاق اوردیگرکے خلاف دائر درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ 2صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریری کیاہے۔ بینچ نے کیس کی سماعت 12ستمبر کو کی تھی۔ درخواست گزارکے پی حکومت کی جانب ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے سید رفاقت حسین شاہ بطور وکیل پیش ہوئے تھے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ مدعا علیہ نمبر 1نے پشاورہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ اس کاوالد سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا ہے اس لئے اسے سرکاری ملازمین کے بچوں کے کوٹے پربطور سٹیٹیسٹیکل کلرک/کراپ رپورٹر بھرتی کیا جائے تاہم وہ مطلوبہ تعلیمی معیارپرپورا نہیں اترتا جبکہ پالیسی صرف کلاس فور کے ملازمین کے حوالہ سے ہے جبکہ جس پوسٹ کا مدعا علیہ مطالبہ کررہا ہے وہ بڑے گریڈکی پوسٹ ہے۔ جبکہ مدعا علیہ کے وکیل نے مئوقف اختیا رکیا کہ سیکشن آفیسر (ریگولیشن 1-)ریگولیشن ونگ، سروسز اینڈجنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ ، خیبرپختونخواحکومت نے 23مئی 2000کو جاری کیا تھا جس کے مطابق متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے گریڈ 1سے گریڈ4کی پوسٹوں پر بھرتی کے لئے 25فیصد کوٹہ سرکاری ملازمین کے بچوں کودیا جائے گا۔

درخواست گزارکے وکیل کی جانب سے اشتہار کاحوالہ دیا گیا جس کے مطابق یہ گریڈ 2کی پوسٹ ہے جوکہ ضلع ایبٹ آباد میں آتی ہے اورمدعا علیہ بھی اسی ضلع کارہائشی ہے۔ جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس نے بتایا کہ 2013میں جاری نوٹیفیکیشن کی روشنی میں 24جنوری 2014کو اس پوسٹ کو اپ گریڈ کے گریڈ5کردیا گیا ہے جو کہ 1مئی2006سے نافذالعمل ہو گی اورایسا مشتاق الرحمان کی جانب سے دائر درخواست پر کیا گیا تو جوکہ مدعا علیہ نمبر1کا باپ تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ حکومت سندھ بنام شہزادحسین تالپور کیس کے فیصلہ میں قراردے چکی ہے کہ صرف نوٹیفکیشن پر متعلقہ اتھارٹی لکھ دینا اور جس اتھارٹی نے کیا ہے اس کانام اورعہدہ نہ لکھنا بے معنی بات ہے۔ مزید یہ کہ جن ہدایات کاحوالہ دیا گیا ہے ان کے حوالہ سے یہ بھی نہیں بتایاگیا کہ یہ کس قانون کے تحت جاری کی گئی ہیں۔ عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے خیبرپختونخواحکومت کی اپیل سماعت کے لئے منظور کرلی۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا ہے کہ اس حکمنامہ کی کاپی درخواست گزاروں کو اطلاع اورعملدرآمد کے لئے بھجوائی جائے۔