فارم 45یافارم47کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے جب ڈبے کھل جاتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ فارم 45یافارم47کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے جب ڈبے کھل جاتے ہیں۔  الیکشن کے معاملہ میں تمام ووٹ ڈبے میں ہیں یہ بنیادی شواہد ہیں، فارم 45اورفارم47ثانوی شواہد ہیں۔ کسی کوشک وشبہ ہے کہ صحیح گنتی نہیں کی ، ایک ہی حل ہے ڈبہ کھول کردوبارہ گنو۔ جھوٹا سچاکون ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ہم حقائق پرچلیں گے، مجھے نہیں پتہ جھوٹا کون ہے ، سچا کون ہے، یہ کوئی میاں بیوی کا مقدمہ تونہیںچل رہا ہے کہ سچاکون ہے جھوٹاکون ہے۔ انصاف کے لئے اوپرجائیں ، ہم قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ کوئی ریٹرننگ افسر مخالف امیدوارکارشتہ دار تھا، کوئی قانونی دلائل دیں،

الیکشن کمیشن اورالیکشن ٹریبونل سے ہارے ہیں آپ سے اُن کوکوئی دشمنی ہے۔ ڈبے میں جوووٹ پڑے ہیں وہ تودشمن نہیں یاتوکہتے کہ سیل ڈوٹی ہوئی تھی، ریٹرننگ افسر اپنی عقل استعمال نہیں کررہا بلکہ حقائق کی بنیاد پر دوبارہ گنتی کرکے فیصلہ کررہا ہے، ہرچیز کو بلاوجہ متنازع نہ بنائیں جبکہ عدالت نے پی بی14 نصیرآباد، بلوچستان میں دوبارہ گنتی اور ریٹرننگ افسران کی جانبداری کے الزامات کے حوالہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار غلام رسول عمرانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محمد خان لہڑی کی کامیابی کے فیصلہ کو برقرار رکھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے بلوچستان اسمبلی حلقہ پی بی 14نصیرآباد پر الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار غلام رسول عمرانی کی کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے امیدوار محمد خان لہڑی ،الیکشن کمیشن آف پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے سعید خورشید احمد جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے محمد اکرم شاہ بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد اور لیگل کنسلٹنٹ فلک شیر بھی دوران سماعت عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل کاکہناتھا کہ یہ پی بی 14نصیر آباد کے الیکشن کامعاملہ ہے، 8فروری کے انتخا بات میں میرے مئوکل نے 19039ووٹ حاصل کئے جبکہ (ن)لیگ کے جیتنے والے امیدوار نے 21103ووٹ حاصل کئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ96 پولنگ  سٹیشنز میں سے 7 پولنگ  سٹیشنز پر دوبارہ گنتی کی درخواست دائر کی۔

چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ غلط رزلٹ تیار کیاگیا۔اس پر وکیل نے کہا کہ  فارم 45 کے مطابق یہ رزلٹ نہیں تھے افسران جانبدار تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست میں الزام کیا ہے بتائیں، فارم 45یافارم47کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے جب ڈبے کھل جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دوبارہ ڈبے کھولے کہ نہیں، غیر ضروری باتیں نہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دوبارہ گنتی کی درخواست کرسکتے ہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے 5ہزارووٹ لئے۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا کہ کاربن کاپی کیسے ثابت کی کہ یہی اصل فارم 45ہے، پریذائیڈنگ افسران نے اصل ریکارڈ پیش کیا، آپ کاپیوں پر کیس چلا رہے ہیں، آپ کے گواہان نے پریذائیڈنگ افسران کا نام تک غلط بتایا،آپ کے گواہ تو خود کو پولنگ ایجنٹس بھی ثابت نہیں کرسکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے معاملہ میں بنیادی شہادت کیا ہوتی ہے، نکاح نامہ، فروخت کامعاہدہ کیا بنیادی شواہد ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے معاملہ میں تمام ووٹ ڈبے میں ہیں یہ بنیادی شواہد ہیں، فارم 45اورفارم47ثانوی شواہد ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا کہ دوبارہ گنتی توہوئی ہے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تقریروں والی بات نہ کریں، اصل نقطہ کی طرف آئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 7پولنگ  سٹیشنز والی بات ہم نے سن لی، فارم 45اورفارم47کون بھرتا ہے۔ اس پر وکیل نے کہا کہ یہ پریذائیڈنگ افسربھرتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پھر یہ سسٹم ختم کردیں، کسی کوشک وشبہ ہے کہ صحیح گنتی نہیں کی ، ایک ہی حل ہے ڈبہ کھول کردوبارہ گنو۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات میں سب سے اہم شواہدڈبے میں موجود ووٹ ہوتے ہیں، فارم 45 تو پریذائیڈنگ افسر بھرتا ہے ،یا تو دوبارہ گنتی پر اعتراض کریں کہ ڈبے کھلے ہوئے تھے۔جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق آپ کے الزامات ثابت نہیں ہوتے،یہ ثابت نہیں کرسکے کہ آپ کے پولنگ ایجنٹس 7پولنگ سٹیشنز پر مووجود تھے،دوبارہ گنتی ہوئی ہے۔

وکیل نے کہا کہ جج صاحب نے بغیر شواہد کے مجھے فیصلے میں جھوٹا کہہ دیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹا سچاکون ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ہم حقائق پرچلیں گے، مجھے نہیں پتہ جھوٹا کون ہے ، سچا کون ہے، یہ کوئی میاں بیوی کا مقدمہ تونہیںچل رہا ہے کہ سچاکون ہے جھوٹاکون ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انصاف کے لئے اوپرجائیں ، ہم قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں، دوبارہ گنتی ہوئی کہ نہیںہمارے سوال کاجواب نہیں دے رہے۔ اس پر وکیل نے کہا کہ دوبارہ گنتی 3مارچ 2024کو ہوئی،دوبارہ گنتی ریٹرننگ افسر کے سامنے ہوئی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ دوبارہ گنتی میں میرے ووٹ وہی رہے اورمخالف جیتے تاہم ان کے ووٹ کچھ کم ہوگئے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی ریٹرننگ افسر مخالف امیدوارکارشتہ دار تھا، کوئی قانونی دلائل دیں، الیکشن کمیشن اورالیکشن ٹربیونل سے ہارے ہیں آپ سے اُن کوکوئی دشمنی ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ محمد خان لہڑی (ن)لیگ کے امیدوار ہیں ان کے 20ہزارسے زائد ووٹ ہیں اور آپ کے 19ہزار سے زائد ووٹ ہیں اورآپ پی پی کے امیدوار ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ جس پریذائیڈنگ افسر نے کاربن کاپی دی اُس کانام ہی غلط بتارہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کیسے کہیں کہ 2فیصلے غلط ہیں کوئی وجہ توبتائیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی، کیا ڈبے دوبارہ بھر دیئے، ٹیمپرنگ کی، آپ کی درخواست پر دوبارہ گنتی کی ، کیسے حقائق کے خلاف جائیں گے، یاکہیں ڈبے کھلے ہوئے تھے پرائمری شواہد ڈبہ ہے ، ووبارہ گنتی میں دونوں کے ووٹ کم ہوئے ۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ اپنے اقدام کو کیسے مستردکریں گے، آپ کے کہنے پر دوبارہ گنتی کروائی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ ڈبے میں جوووٹ پڑے ہیں وہ تودشمن نہیں یاتوکہتے کہ سیل ڈوٹی ہوئی تھی، ریٹرننگ افسر اپنی عقل استعمال نہیں کررہا بلکہ حقائق کی بنیاد پر دوبارہ گنتی کرکے فیصلہ کررہا ہے، ہرچیز کو بلاوجہ متنازعہ نہ بنائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پراسیس ختم ہوگیا، فارم 45غلط تھا یہ ثابت ہو گیا کہ دونوں کے ووٹ کم ہو گئے، اصلی بات ڈبے والی بات ہے ، یاتوکہیں کہ رات کوڈبے بھردیئے، سیل ٹوٹی ہوئی تھی۔چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کوہمیں جواب دینے کی ضرورت نہیں، ہمیں قائل کریں کہ فیصلہ غلط ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کتنا وقت دیں ایک گھنٹہ ہو گیا ہے آپ کوسنتے ہوئے، آپ نے ہمیں فیصلہ کرنے کی اجازت دی شکریہ۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ الزام لگارہے ہیں آپ اُس پولنگ ایجنٹ کو بلاتے، آپ نے نہیں بلایاتاہم ٹریبونل نے تسلی کے انہیں بلایا اورجرح بھی کی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ریٹرننگ افسر نے فراڈ کرنے کے لئے میرے سرکے اوپر سات پریذائیڈنگ افسران کو مسلط کردیا۔

اس پر چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ وکیل بنیں گے گواہ نہ بنیں، کیاآپ کے مئوکل کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔اس پر وکیل کاکہنا تھاکہ موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا وہ کدھر ہیں تووکیل نے اشارہ کیااور غلام رسول عمرانی کھڑے ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم آپ کے مئوکل کے سامنے کہہ دیتے ہیں وکیل نے بہت اچھے دلائل دیئے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزارنے الیکشن ٹریبونل کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ حلقہ میں کل 26امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ کل 42132درست ووٹ ڈالے گئے، جن میں سے درخواست گزارنے 19039اورجیتنے والے امیدوار نے 21103ووٹ حاصل کئے۔ درخواست گزارنے الیکشن کمیشن کودوبارہ گنتی کی درخواست دی،

دوبارہ گنتی کی درخواست منظورہوئی اور تمام فریقین کی موجودگی میں 3مارچ2024کو دوبارہ گنتی ہوئی۔ درخواست گزار نے 18787ووٹ حاصل کئے جبکہ جیتنے والے امیدوار نے20706ووٹ حاصل کیئے۔ دوبارہ گنتی میں دونوں امیدواروں کے ووٹ کم ہوگئے تاہم نتیجہ برقراررہا۔ الیکشن ٹریبونل نے جامع فیصلہ تحریرکیا۔ ٹریبونل نے شواہد کاآزادانہ طو ر پرجائزہ لیا اوراس نتیجہ پر پہنچے کہ درخواست گزار کے الزامات غلط ہیں اور صاف اورشفاف انتخابات ہوئے ہیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔