دنیا کے نقشے پر ایک ایسا ملک ہے جو اپنی جغرافیائی اہمیت کے ساتھ عالمی سیاست میں ایک کلیدی مقام رکھتا ہے۔ 77 سالہ یہ ملک دنیا کی چھٹی بڑی آبادی کا حامل ہے، جس کے پاس قدرتی وسائل کی فراوانی، متنوع موسم، اور 7ویں ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ملک کی سب سے بڑی طاقت اس کی 60 فیصد نوجوان آبادی ہے، جو قوم کا مستقبل سنوارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس ملک کی نصف آبادی ناخواندہ ہے۔ جہاں 22.8 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، جو کہ کئی ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہیں۔ صدیوں پرانا تعلیمی نظام، بدعنوان اور نااہل سیاسی قیادت، اور ناکام بیوروکریسی نے تعلیم کے نظام کو برباد کر دیا ہے۔ ملک کی 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بدقسمتی سے یہ کہانی ہے پیارے پاکستان کی۔
ہم بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز اور ایس او ایس فاؤنڈیشن کے تحت اسلام آباد کے دیہی علاقوں کی کچی آبادیوں میں رہنے والے بچوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم ان کےجونپڑیوں میں جاتے ہیں، ان کے والدین کوبچوں کی پڑھائی کےلئے قائل کرتے ہیں، اور بچوں کو یونیفارم، جوتے، کتابیں، اسٹیشنری اور دوپہر کا کھانا فراہم کرتے ہیں۔ بچے غیر رسمی تعلیم کے مراکز میں آتے ہیں ۔ لیکن چند روز گزرنے کے بعد جب ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ بچے غائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں معلوم کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ کم عمر بچے، جن کی عمریں 16 سال سے کم ہیں، اپنے خاندان کی کفالت کے لیے مزدوری کر رہے ہیں۔ ان بچوں کے لیے تعلیم ایک حق ہے، لیکن غربت اور معاشرتی حالات نے انہیں اس حق سے محروم کررکھا ہے۔
پاکستان میں تعلیم کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔ یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح تقریباً 58 فیصد اور اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق 62.8فیصد ہے، جو دنیا کی اوسط 86 فیصد سے بہت کم ہے۔ اس وقت 22.8 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، اور یہ تعداد دنیا میں اسکول نہ جانے والے بچوں میں دوسرا بڑا حصہ ہے۔ یہ بچے زیادہ تر دیہی علاقوں اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں روزگار اور بنیادی ضروریات کی قلت کے باعث انہیں اسکول بھیجنے کے بجائے مزدوری پر لگا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کا صدیوں پرانا تعلیمی نظام اس صورتحال کو مزید خراب کرتا ہے۔ ناقص نصاب، کم تربیت یافتہ اساتذہ، اور تعلیمی اداروں کی کمی نے تعلیم کو بے حد مشکل بنا دیا ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25-اے ہر بچے کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا حق فراہم کرتا ہے، لیکن یہ حق صرف کاغذی حد تک محدود ہے۔ پاکستان کے حکومتی نظام کی ناقص کارکردگی اور ناکافی تعلیمی بجٹ اس حق کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان تعلیم پر اپنی جی ڈی پی کا صرف 1.77 فیصد خرچ کرتا ہے جو دنیا میں کم ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کی پائیدار ترقیاتی اہداف (SDG 4) کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان تعلیم میں بہتری کے اہداف سے کہیں دور ہے۔ علامہ اقبال نے کیاخوب کہا تھاکہ:
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا
پاکستان میں ناخواندگی کا براہ راست تعلق ملک کے دیگر بحرانوں سے بھی ہے۔ غربت اور ناخواندگی کے چکر میں پھنسے ہوئے خاندان اپنے بچوں کو تعلیم دینے کی بجائے ان سے مزدوری کراتے ہیں تاکہ وہ روزمرہ کی ضروریات پوری کر سکیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان کی 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور اس غربت کا خاتمہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔
ناخواندگی کا اثر صرف معیشت تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ سماجی مسائل ، جرائم اور دہشت گردی جیسے مسائل کو بھی جنم دیتا ہے۔ غیر تعلیم یافتہ نوجوان انتہاپسند نظریات کی طرف زیادہ آسانی سے مائل ہو جاتے ہیں، جس سے ملک میں عدم استحکام اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور اندرونی سیاسی و معاشرتی مسائل نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
آرٹیکل 25-اے کے تحت حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے۔ لیکن اب تک اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں حکومتیں ناکام رہی ہیں۔ جب تک حکومت تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرتی، اور ساتھ ہی نصاب کی بہتری، اساتذہ کی تربیت اور تعلیمی اداروں تک رسائی کو بہتر نہیں بناتی، اس بحران کا خاتمہ ممکن نہیں۔
ان تمام چیلنجز کے باوجود، کچھ ایسی کہانیاں ہیں جو امید کی کرن اور حوصلے کا باعث بنتی ہیں۔ ہم ان دیہی علاقوں میں بار بار جا کر والدین کو یاد دلاتے ہیں کہ تعلیم ان کے بچوں کا حق ہے، اور ہم کمیونٹی اور مقامی تنظیموں کے ساتھ مل کر بچوں کی تعلیی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے وسائل فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ بچے دوبارہ اسکول آتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ تعلیم ان کے مستقبل کو بہتر بنا سکتی ہے۔
وزیراعظم پاکستان کی حالیہ “تعلیمی ایمرجنسی ، روشن پاکستان لٹریسی ڈرائیو” جیسے اقدامات مثبت قدم ہے، لیکن عملی طور پر کئی مسائل موجود ہیں۔ جن میں مالی وسائل کی کمی، پیشہ ورانہ انسانی وسائل کی عدم دستیابی اور تعلیم کی اضافی چارج والے پارٹ ٹائم وزیر تعلیم کی تعیناتی، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تعلیم کے بحران کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔
اگر وزیرِ اعظم واقعی تعلیم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، تو انہیں اسے ہر پہلو سے اولین ترجیح بنانی ہوگی، اور ضروری مالی وسائل، پیشہ ورانہ انسانی وسائل کی فراہمی، اور کل وقتی وزیر تعلیم کے تحت ایک فعال وزارت تعلیم شامل ہوں، تاکہ تعلیم کی مضبوط بنیادوں پر ملک کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ حکومت کو اپنی آئینی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ جب تک حکومت اس پر توجہ نہیں دے گی، پاکستان میں لاکھوں بچے ناخواندگی کے اندھیروں میں کھوئے رہیں گے۔ بین الاقوامی یومِ خواندگی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کی جدوجہد صرف اسکول بنانے کی نہیں، بلکہ ایک ایسا مستقبل تعمیر کرنے کی ہے جہاں ہر بچہ، چاہے اس کا پس منظر کچھ بھی ہو، خواب دیکھنے، سیکھنے، اور ترقی کرنے کا حق رکھتا ہو۔
علم چڑھتا آفتاب اور علم ہے باد مراد
علم زندہ باد اس کی آگہی پائندہ باد