فلسطین میں اوسط عمر اب صرف 19 سال : تحریر محمود شام


’’ تم نے ہمارے بچوں کو قتل کردیا ہے

تمہاری گولیاں ان کے دلوں میں موجود محبت کو چیرتی ہوئی گزر گئی ہیں

اب وہاں صرف اور صرف نفرت ہے

تم اپنے جھنڈے نصب کرتے رہو

امن کی بات کرتے رہو۔ جو تمہاری کبھی نیت نہیں رہی

ہمارے نوجوان تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے

تم نے ان کے مہربان دلوں کو تار تار کردیا ہے‘‘

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں،بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے ۔دنیا جہان کی باتیں کرنے کا دن۔ ان کے ذہنوں میں کشمیر فلسطین میں ظلم و جبر پر سوالات کے جوابات دینے کا دن۔عصر کے بعد محلے داروں سے ملنے ملانے آپس کے دکھ درد بانٹنے کا دن۔ پاکستان بھر سے لوگ بتاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے اتوار ایسے گزارنا شروع کردیا ہے ۔ اس سفاکی، شقی القلبی کے دنوں میں ایک دوسرے سے حال احوال جاننا زندگی سے محبت کا اظہار ہے،مظلوموں کو ایک ساتھ ہونا چاہئے۔ جو مسائل خود حل کرسکتے ہیں،انہیں آپس میں طے کرلیں تو خوش رہیں گے۔

اپنے دُکھ درد اپنی ہلاکتیں اپنے لاپتہ اپنی جگہ۔ اکیسویں صدی میں جب انسان کی زندگی آسان کرنے کی ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہے۔ جب امن کے قیام کیلئے اربوں ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ اس صدی کی تیسری دہائی میں دنیا کے عین قلب میں کوئی دن نہیں جاتا جب سو ڈیڑھ سو لاشیں نہیں گرائی جاتیں،جن میں زیادہ تر دودھ پیتے بچے ہیں، اسکول جاتی بچیاں ہیں، نشانہ باندھ باندھ کر بم گرائے جاتے ہیں، فائرنگ کی جاتی ہے،تاریخ کے تاریک زمانوں میں ہم جس ’نسل کشی‘ کا پڑھتے آئے ہیں، وہ آج کے روشن دنوں میں بھی ہورہی ہے،بنی نوع انسان، ایک انسان کے قتل پر حرکت میں آجاتی تھی اب روزانہ ایک ڈیڑھ سو زندگیاں چھینی جارہی ہیں، کوئی تعزیت بھی نہیں کرتا، کسی بادشاہ،کسی صدر، کسی وزیر اعظم کا بیان بھی نہیں آتا۔ لگتا ہے کہ ساری حکومتوں، سارے اداروں نے فلسطینیوں کی ہلاکت کو ایک معمول سمجھ لیا ہے۔سب نے ایک ناجائز ریاست کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ جتنے چاہے فلسطینی ہلاک کردے۔ دنیا میں کسی مومن کو کسی کافر کو کوئی فرق نہیںپڑتا، غزہ میں انسان پیدا اس لیے ہوتے ہیں کہ انہیں شیر خواری میں گہواروں میں، گودوں میں لہولہان کردیا جائے،بہت سوں کو تو رحم مادر میں ہی شہید کیا جارہا ہے۔

محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ عالم انسانیت اس لیے خاموش ہے کہ یہ کلمہ طیبہ پڑھنے والے ہیں۔ یہ اللہ،اس کے رسول ﷺ، اس کی کتاب کو ماننے والے ہیں،ان کو دنیا میں آنے،پھر سانس لینے، پھر آزادی سے زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ اختیار اس علاقے میں صرف اور صرف یہودیوں کو ہے۔

انہیں صرف خود زندہ رہنے کا اختیار ہی نہیں بلکہ ہر فلسطینی کو جان سے مارنے کا اختیار بھی ہے۔ عالمی ادارے کس بے شرمی سے بتارہے ہیں کہ غزہ کی آبادی 23 لاکھ تھی اب 21لاکھ رہ گئی ہے۔ ڈیڑھ لاکھ ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں، 42ہزار مارے جاچکے ہیں، جن میں 15ہزار بچے ہیں، خواتین ہیں،72889 زخمی ہیں۔ اسپتالوں میں کراہ رہے ہیں، اسکولوں پر بمباری کی جارہی ہے، اسپتالوں پر، خاص طور پر میٹرنٹی ہوم پر فلسطینیوں کی دنیا میں آمد ہی روکی جارہی ہے۔

اب تو کلمہ گو بھائیوں نے بھی رونا چھوڑ دیا ہے،سب اپنی اپنی فکروں میں گرفتار ہیں۔ شہنشاہ، بادشاہ،صدور،وزرائے اعظم، سپہ سالار سب بھول گئے ہیں کہ وہ کس ایک امت کے فرد ہیں۔ اس امت کے کسی بھی فرد پر کہیں بھی ظلم ہورہا ہو تو ان کا دینی فرض ہے۔ انسانی ذمہ داری ہے کہ ان ظالم ہاتھوں کو روکیں۔کوئی غیر مسلم کسی بھی جگہ ظلم کا شکار ہو تو کیسے نیٹو حرکت میں آجاتی ہے۔ اقوام متحدہ چیخ اٹھتی ہے۔ اسلام کو کس طرح دہشت گرد، انتہا پسند مذہب قرار دے دیا جاتا ہے، مسلمان ممالک بھی ان غیر مسلموں کے اتحادی بن جاتے ہیں۔

میں لرز اٹھا ہوں کہ عالمی ادارے فلسطینی کی اوسط عمر 19سال بتارہے ہیں، اتنی کم عمری میں موت آرہی ہے، فلسطینی دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہیں، فلسطینی عربوں میں سب سے زیادہ سماجی، تہذیبی، ادبی شعور رکھنے والے ہیں۔ ان کی شاعری افسانے، ان کی خرد افروزی دوسرے تمام عربوں سے کہیں زیادہ بلند معیار ہے۔ اس لیے یہ بھی احتمال ہے کہ خود عرب امراء کی خواہش یہی ہو کہ ان باشعوروں کی تعداد نہ بڑھنے پائے۔ فلسطینی ریاست میں 55لاکھ رہتے ہیں جس کا رقبہ صرف 6020مربع کلومیٹر ہے اور یہ سارا شہری علاقہ ہے۔ اس لیے یہاں انسان کی ہلاکت بھی آسان ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کے حملوں کا جواب دے رہا ہے۔ وہ ایسی قوم کی نسل ہی ختم کرنا چاہتا ہے۔ جو یہودیوں سے مزاحمت کرتی ہو۔ گزشتہ اکتوبر سے شروع ہونے والی اس حالیہ جنگ میں فلسطینی تو 42ہزار مارے گئے ہیں۔ اسرائیلی صرف 1478 ، اس جنگ میں 116 صحافی بھی کام آئے ہیں، ان میں 111فلسطینی، 3لبنانی اور اسرائیلی صرف 2ہیں۔ غزہ کی آبادی کے 2فی صد سے زائد بچے 6ماہ میں شہید یا زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ سے زندگی چھین لی گئی ہے۔ 96فی صد آبادی خوراک سے محروم ہے۔ اسرائیلی پولیس اور فوج پانچ لاکھ فلسطینیوں تک غذائی امداد نہیں پہنچنے دے رہی ۔

غزہ میں موت ہر صبح سے شام تک منڈلاتی ہے۔ اسرائیلی قاتلوں کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے سفاک ایجنڈے کی تکمیل کررہے ہیں۔ 50سے زیادہ ممالک مسلمان اکثریت رکھنے والے ہیں۔ ایک تنظیم او آئی سی بھی ہے لیکن غزہ میں انسانیت کا قتل عام جاری ہے۔ مسلمان امت سورہی ہے اور اہل مغرب جو اپنے آپ کو تہذیب، ثقافت،علم، تحقیق کا مرقع کہتے ہیں۔ وہ اتنے انسانوں کے قتل پر کیوں خاموش ہیں۔ غزہ میں مارے جانے والوں کو صرف مسلمان سمجھ کر کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ مسلمان کیا انسان نہیں ہوتے ہیں۔

فلسطینی اتنے ظلم اتنی ہلاکتوں کے بعد بھی اسرائیل کی برتری ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک فلسطینی شاعرہ کی نظم سنئے۔’’ اے سورج کے دشمنو/ اگر تم چاہو تو اپنی مزدوری چھوڑ سکتی ہوں/میں اپنے ملبوس۔ اپنے بستر بیچ سکتی ہوں/ میں پتھر توڑنے کا کام کرسکتی ہوں/ کسی گلی میں جھاڑو لگاسکتی ہوں/ تمہارے دستر خوانوں کا کچرا اٹھاسکتی ہوں/ میں بھوکی سوسکتی ہوں/ اے سورج کے دشمنو/جب تک میری سانس میں سانس ہے/ میری رگوں میں خون دوڑ رہا ہے/ میں تم سے سمجھوتہ نہیں کروں گی/ اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے مزاحمت کرتی رہوں گی۔‘‘

ایک فلسطینی بچہ دوسرے بچوں سے کہہ رہا ہے۔/اٹھو/ان کھنڈرات سے باہر آؤ۔ جو کبھی تمہارے گھر تھے/ تمہاری محفوظ پناہ گاہیں تھے/ اٹھو اس راکھ کے ڈھیر سے/ جو تمہاری آنکھوں میں بھر گئی ہے/ اٹھو چل پڑو۔

بشکریہ روزنامہ جنگ