معروف کشمیری دانشور محقق شیخ تجمل الاسلام کی یاد میں خصوصی تقریب

 اسلام آباد(صباح نیوز)معروف کشمیری دانشور’ محقق اور کشمیر میڈیا سروس  کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شیخ تجمل الاسلام کے تیسرے یوم وفات کے سلسلے میں آج ماہنام کشمیر الیوم کے دفتر میں ایک تعزیتی سیمنار یونائیٹڈ کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن” یکجا” اور کشمیر الیوم کے اشتراک سے شیخ محمد امین اور عبدالطیف ڈار کی صدارت میں منعقد ہوا۔سیمنار میں یکجا اور کشمیر الیوم کے ممبران نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔مقررین نے اپنے خطاب میں شیخ تجمل الاسلام کے حالات زندگی’ تحریک آزادی کشمیر میں میڈیا کے محاذ پر ان کی کاوشوں اور ان کے تحقیقی مقالوں پر بھرپور روشنی ڈالی۔مقررین نے کہا کہ شیخ تجمل الاسلام گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی نہ خود مایوس تھے اور نہ ہی دوسروں کو مایوس ہونے دیتے تھے۔وہ سید و شہدا سیدنا امام حسین کا اکثر حوالہ دیتے تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ امت وسطہ کا خواب دیکھا کرتے تھے۔وہ کبھی تفرقہ کے قائل بھی نہیں رہے۔البتہ جس بات کو حق سمجھتے تھے اس کا ڈنکے کی چوٹ پر اظہار کرتے تھے۔ لہذا انہیں بھولنا تحریک کو بھولنے کے مترادف ہے۔مقررین نے کہا کہ جب ہم 1980 میں سنہ 30 اور 41 کے واقعات کا ذکر سنتے تھے تو ہماری نظروں کے سامنے اپنی تاریخ گھومتی ہے لہذا آج ہمیں اپنی تاریخ کو بھولنا نہیں بلکہ دوہرانا چاہیے۔

نئی نسل کو اپنی تابناک تاریخ سے روشناس کرانا ضروری ہے اور شیخ تجمل الاسلام بھی روشن ستاروں میں سے ایک تھے.انہوں نے کہا کہ وہ ایک دانشور’ استاد’ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلی اور تحریک آزادی کشمیر کے ایک اہم رہنما تھے۔انہوں نے کہا کہ وہ کھلے دل و دماغ کے مالک تھے ۔وہ جہاں ڈسپلن کے سخت قائل تھے تو دوسروں میں بھی یہی چیز منتقل کرنا چاہتے تھے ‘ جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ مقررین نے کہا کہ شیخ صاحب نے بڑی مشکلات و مصائب کا سامنا کیا لیکن وہ چٹان کی مانند ثابت قدم رہے۔وہ جذباتی نہیں بلکہ انہیں صورتحال کا بھرپور ادارک تھا ۔ وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی بھی نشاندہی بڑے احسن انداز میں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک نظریاتی شخص تھے اور وہ زمانہ شناس بھی تھے۔انہوں نے کشمیر میڈیا سروس KMS کو ایک شناخت دی جو انہی کی ذہانت اور بلاغت کا طرہ تھا۔اس سے قبل 1994 میں کشمیر کے شب روز میں اپنا جامع تبصرہ لکھتے تھے۔اس کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر آفیرئرز IK کے بھی سربراہ تھے ۔انہوں نے کبھی اپنے  آپ کو لیڈر نہیں سمجھا بلکہ وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہے اور پھر طے کرلیا کہ موجودہ صورتحال میں کیسے کام کیا جاسکتا ہے۔

آخر پر شیخ صاحب اور مرحوم شیخ محمد لطیف کیلئے دعائے مغفرت کرکے ان کے نظریئے کو آگے بڑھانے کا عزم دوہرایا گیا۔ سیمنار میں ظہور احمد صوفی ‘ چوہدری محمد رفیق ‘ شوکت علی ابوذر’ نعیم الاسد’ ڈاکٹر محمد اشرف وانی ‘ اقبال بلوچ ‘ طالب رضوان’ مصعب الحق’ اویس بلال ‘ چوہدری آصف محمود’ قیصر فاروق’ حیدر علی’ محمد عمر بٹ ‘ ڈاکٹر بلال ‘ عمر اعجاز ‘ شجر خان ‘ شیخ یاسین اور دیگر افراد شریک تھے۔