ایوب خان نے بعد میں بتایا کہ جب بھی وہ کشمیر کے بارے میں بات چیت شروع کرنے کی کوشش کرتے تھے، تو نہرو کھڑکی کے باہر کے مناظر پر تبصرہ کرتے تھے۔ جنوری 1963 کو دونوں ممالک نے کشمیر کے حوالے سے بات چیت کے کئی دو ر منعقد کئے۔ اس میں پاکستان نے محسوس کیا کہ بھارت نے رائے شماری کو مسترد کرنے کے لیے ایک نیا بہانہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ یعنی کہ اگر کشمیری مسلمان پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے ہیں، تو بھارت کے ہندو اسکو بے وفائی سے تعبیر کرکے اس کا غصہ بھارتی مسلمانوں پر نکال سکتے ہیں۔ جس سے فرقہ وارانہ حالات بگڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کشمیر کی تقسیم ، جس میں اسکو کشمیر وادی، ریاسی، میرپور اور پونچھ کے اضلاع کا ایک حصہ مل جاتا پر آمادہ تھا۔ مگر بھارت کی تجویز تھی تقسیم سیز فائر لائن کی معمولی ایڈجسٹمنٹ کے حساب سے ہو۔ یہ مذاکرات با لآخر 16 مئی 1963 کو دم توڑ گئے۔ کتاب کے مطابق جب 1965 کی جنگ شروع ہوئی ، تو سب سے کم معلومات بھارتی ہائی کمشنر کیول سنگھ کو تھیں۔ ان کو عملی طور پر گھر میں نظربند کر دیا گیا اور ریڈیو و دیگر مواصلات سے ان کا رابطہ منقطع تھا۔ ان کو 28ستمبر کو معلوم ہوا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔ اب وہ تاشقند جانے کیلئے کمر بستہ ہو رہے تھے۔ وہاں پہنچ کر جب انہوں نے اپنے ہم منصب ارشد حسین کو سلام کرنے کی کوشش کی، تو انہوں نے ان کو جھڑک دیا۔ خیر دلبرداشتہ ہوکر وہ ہال سے باہر نکلے ، حسین نے ان کو کوریڈور میں بتایا کہ صدر ان کو تاڑ رہا تھا، اس لئے انہوں نے سرد مہری دکھائی۔ اگلے چند روز جب معاہدے کے کوئی سر و پیر نظرنہیں آرہے تھے، تو دونوں ہائی کمشنران تاشقند ہوٹل کے سامنے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر خریداری کرنے پہنچے۔ خریداری تو بہانہ تھا۔ حسین نے سنگھ کو سمجھایا کہ پاکستانی وفد کے لیے ایسی دستاویز کے ساتھ گھر جانا مشکل ہو گا جس میں کشمیر کا حوالہ نہ ہو۔ اسی اسٹور میں دونوں نے معاہدہ کے مندرجات کو ڈرافٹ کیا اور پھر اپنے وفود کے سربراہان کو پیش کیا۔ کتاب کے مطابق 1971 کی جنگ سے پہلے، بھارتی ہائی کمشنر جئے کمار اٹل کو پاکستانی صدر یحیی خان نے پانچ نکات پر مشتمل امن مساعی کی پیشکش کی ۔ یحیی تجویز کر رہے تھے کہ: بھارت اور پاکستان عدم جارحیت کے معاہدے پر دستخط کریں۔ بھارت مشرقی پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرے ۔ نورالامین (مجیب کے مخالف ایک منتخب بنگالی سیاست دان) کو پورے پاکستان کے لیے حکومت کا سربراہ مقرر کیا جائے؛مہاجرین کی مشرقی پاکستان واپسی؛ اور تین سال میں ریفرنڈم کرایا جائے گا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ مشرقی پاکستان آزاد ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سجاد حیدر بھی ان تجاویز پر زور دے رہے تھے۔ اندرا گاندھی نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات ہو چکے ہیں، اور ان میں عوام نے رائے دی ہے اس لئے نورالامین کو سربراہ بنانا اور رائے شماری پر ان کو اعتراض تھا۔ اس دوران اسلام آباد میں امریکی سفیر، جوزف فارلینڈ تہران میںبھارت، عوامی لیگ اور پاکستان کے نمائندوں کی میٹنگ کروانے کے حوالے سے پرجوش تھے۔ بھارت ہائی کمشنر ان کو امیدیں دلا رہے تھے۔ وہ ان کو بتا رہے تھے کہ پاکستان میں یحیی کے ذریعے فوری طور پر ایک سویلین حکومت کی تشکیل اور اقتدار کی منتقلی بروقت اقدام ہوسکتا ہے۔ امریکی سفیر جب یہ سب کچھ بھارتی ہائی کمشنر کے ساتھ طے کر نے کے بعد گھر پہنچا ، تو اس کو معلوم ہوا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اسلام آباد میں سوئٹزرلینڈ نے بھارت کے سفارتی مفادات کی دیکھ بھال کرنے پر رضامندی ظاہر کی ۔اٹل کو گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ اگلے دو ہفتوں تک وہ حالات و واقعات سے بے خبر رہے۔ پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے سے قبل سلامتی کونسل میں قرارداد آنے سے پہلے یحیی خان نے بھٹو سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں بتایا کہ پولینڈ کی قرارداد اچھی لگ رہی ہے اور اسکو قبول کرنا چاہیے۔’ بھٹو نے جواب دیا تھا، ‘میں آپ کو سن نہیں سکتا۔’ جب یحیی نے خود کو کئی بار دہرایا تو بھٹو نے صرف اتنا کہا، ‘کیا کیا؟’ جب نیویارک میں فون آپریٹر نے مداخلت کرکے کہا کہ فون کی لائن ٹھیک ہے، تو بھٹو نے اس کو جھڑک دیا۔ واضح طور پر، بھٹو کا یحیی کی ہدایات پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ بھٹو نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قرار داد کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور واک آوٹ کیا۔ بساریہ کے مطابق بھٹو کے اقوام متحدہ سے واک آؤٹ کرنے کے فیصلے نے پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈلوانے پر مجبور کردیا اور بھارت کی فیصلہ کن فتح ہوئی۔ 1972 میں شملہ کے مقام پر مذاکرات ناکامی کی طرف بڑھ رہے تھے۔آدھی رات کے وقت جب بھٹو الوداعی ملاقات کرنے اندرا گاندھی کے پاس پہنچے، تو ان کو بتایا ان کو وقت دیا جائے، تاکہ وہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان میں رائے عامہ کو تیار کرکے لائن آف کنٹرول کو معمولی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کروائیں۔ 2 جولائی کی صبح ایک معاہدہ طے پا یاگیا۔ اس نے دوطرفہ ازم کے اصول پر زور دیا۔ آخر کار 1976 کے وسط میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات دوبارہ شروع ہوئے۔ 24 جولائی کو کے ایس باجپائی اور سید فدا حسین سفیر نامزد کردئے گئے۔ کتاب کے مطابق جب اٹل بہاری واجپائی نے 1978 میں بطور وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کیا، تو اس سے قبل انہوں نے دہلی میں اپنی اردو کو درست اور چست کرنے کیلئے کالج کے پروفیسر سے باضابط کلاسیں لیں۔ اسلام آباد میں تقاریب کے دوران انہوں نے اردو اشعار و نثر کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ اس حد تک کہ پاکستان، جس کی سرکاری زبان اردو تھی، کے وزیر خارجہ آغا شاہی کو اپنی انگریزی تقریر کا اردو میں ترجمہ کرنا پڑا۔ مگر وہ اس کو اٹک اٹک کر پڑھ رہے تھے۔ واجپائی اپنے میزبانوں کے مقابلے نہایت ہی شستہ اردو بول رہے تھے۔ 1980 میں اندرا گاندھی نے ایک منجھے ہوئے سفارت کار نٹور سنگھ کو بطور ہائی کمشنر نامزد کردیا صدرضیا الحق نے ان سے ملاقات کے دوران کہا کہ کنور صاحب، کشمیر میرے خون میں شامل ہے۔ ‘ سنگھ نے جواب دیا، ‘سر، کشمیر میری ہڈیوں کے گودے میں شامل ہے۔ خیر ‘ 15 ستمبر 1981 کو، ضیا الحق نے بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی پیشکش کی۔ اس سے قبل بھٹو بھارت کی طرف سے اسی طرح کی تجویز کو مسترد کر چکے تھے۔ ان کے خیال میں یہ مسئلہ کشمیر کو منجمد کرنے کی ایک سازش تھی۔ اس وقت اب بھارت کی باری تھی کہ اس کو مستر د کرے۔ بھارتی افسران کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش امریکہ کی ایما پر کی گئی ہے، تاکہ پاکستان کو 3.2 بلین ڈالر کے فوجی پیکج سے نوازا جائے اور بھارت کو یقین دلایا جائے کہ امداد اس کے خلاف نہیں ہے۔(جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز