میں نے کل خبروں کے ڈھیر میں چار سطروں کی ایک چھوٹی سی خبر دیکھی خبر میں لکھا تھا چین کے مالیاتی ذخائر 32 اشاریہ 224 ٹریلین ڈالر ہو گئے ہیں یہ بھی تحریر تھا ذخائر میں اس سال اشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا میں نے خبر پڑھی اور سن ہو کر رہ گیا آپ یقینا جانتے ہوں گے ایک بلین ڈالر میں ہزار ملین ڈالر ہوتے ہیں اور ایک ملین ڈالر 28 کروڑ روپے کے برابر ہوتا ہے اور ایک ٹریلین ڈالر میں ہزار بلین ڈالر ہوتے ہیں اور چین کے مالیاتی ذخائر 32 ٹریلین ڈالر اور 224 بلین ڈالرز ہیںہم اس رقم کی مالیت کا اندازہ موجودہ کیلکولیٹر سے نہیں کرسکتے اور یہ مالیاتی ذخائر کس ملک کے ہیں؟
اس ملک کے جسے 1950تک افیونیوں کی قوم کہا جاتا تھا جس میں 1970 تک پبلک ٹوائلٹس نہیں ہوتے تھے ماؤزے تنگ کے گھر میں بھی کموڈ نہیں تھا چیئرمین ما کے لیے جہاز پاکستان نے تحفے میں دیا تھا دنیا کے ساتھ اس ملک کا واحد رابطہ پاکستان کے ذریعے تھاچینی 1980 تک 24 گھنٹوں میں صرف ایک بار کھانا کھاتے تھے پبلک ٹرانسپورٹ اس وقت شروع ہوئی جب ہماری والو بسیں کراچی کی ٹرام اور جی ٹی ایس ختم ہو گئی چین میں لوگ زیادہ اور خوراک کم تھی لہذا حکومت نے اعلان کر دیا زمین کے نیچے اور اوپر ہر چیز حلال ہے چناں چہ لوگ چیونٹیوں کیڑوں مینڈکوں اور سانپوں سے لے کر چیل کوے تک سب کچھ کھاجاتے تھے یہ جانوروں کی انتڑیاں اوجڑی کھرسینگ اور ہڈیاں بھی کھا جاتے تھے پورے چین میں کوئی جانور طبعی موت نہیں مرتا تھا۔
لوگ اسے آخری سانس لینے سے پہلے ہی کھا پی جاتے تھے چین میں طوائفیں اور فقیر نہیں تھے کیوں کہ پورے ملک میں کوئی بھی خاتون تھوڑے سے معاوضے یا ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنا آپ دوسروں کے حوالے کر دیتی تھی اور لوگ کپڑے سے لے کر کنگھی تک دوسروں سے مانگ لیتے تھے لہذا سب ہی فقیر تھے صاف پانی کا بھی 1980تک کوئی تصور نہیں تھا پانی صرف پانی ہوتا تھا لوگ گندے پانی کی بیماریوں سے بچنے کے لیے گرم پانی پیتے تھے ملک میں سب سے بڑی سواری سائیکل اور گدھا ہوتا تھا اور یہ ہر شہر میں کثرت سے دکھائی دیتے تھے نہانے کا تصور نہیں تھا لہذا چینیوں سے بو آتی تھی مجھے ایک سابق فارن سیکرٹری نے بتایا میرے آفس میں جب چینی سفیر آتا تھا تو اس کے جانے کے دو گھنٹے بعد تک آفس سے بو آتی رہتی تھی یورپ اور امریکا میں بھی لوگ چینیوں کے ساتھ سفر نہیں کرتے تھے ان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ شیو کی سیفٹی ہاتھ کا چینی پنکھا اور رنگین چھاتے تھے اور بس۔
میں نے پہلا بین الاقوامی سفر چین کا کیا تھا میں 1985میں بس کے ذریعے کاشغر گیا تھا راولپنڈی سے اس زمانے میں بسیں چلتی تھیں میں بس میں بیٹھ کر سست بارڈر پہنچا چین میں ہمارا پہلا اسٹاپ کاشغر گاؤن تھا پورے ٹاؤن میں صرف ایک پبلک ٹوائلٹ تھا اور اس کی صورت حال یہ تھی زمین میں تین تین فٹ کے فاصلے پر سوراخ کر دیے گئے تھے دس سوراخ ایک سائیڈ پر تھے اور دس دوسری سائیڈ پر اور لوگ الف ننگے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر قدرتی عمل سے گزر رہے تھے وہ اس عمل کے دوران ایک دوسرے سے سگریٹ بھی مانگ کر پی رہے تھے۔
غسل خانے میں بھی لمبے سے پائپ کے نیچے ٹونٹیاں لگی تھیں اور لوگ سرے عام نہا رہے تھے پورے شہر میں گاڑی نہیں تھی صرف کھوتا ریڑھی سروس تھی کاشغر کی حالت بھی پتلی تھی بجلی صرف چار گھنٹے آتی تھی لوگ دو دو کی ٹولیوں میں بیٹھتے تھے پہلے ایک دوسرے کو پنکھا جھلتا تھا اور پھر دوسرا پہلے کو اس نوعیت کا واری وٹا میں نے پہلی بار دیکھا تھا لوگ پورا سگریٹ نہیں پیتے تھے دو کش لگا کر سگریٹ بجھا کر جیب میں ڈال لیتے تھے اور پھر دو گھنٹے بعد باقی حصہ سلگا کر علت پوری کر لیتے تھے عورتیں بندروں کی طرح دوسری عورتوں کے سر کی جوئیں نکال کر کھا جاتی تھیں گھروں میں آدھا خاندان صبح کھانا کھاتا تھا اور آدھا رات کے وقت ہمسایوں سے سالن اور روٹی مانگنے کی عام روایت تھی شہر میں مکھیوں مچھروں اور بدبو کی بہتات تھی۔
ارومچی کاشغر سے دو ہزار کلو میٹر دور تھا اور وہاں پہنچنے کا واحد ذریعہ بس تھی اور بسیں بھی انتہائی گندی اور بے آرام تھیں لیکن آج وہ چین دنیا کے ماڈرن ترین ملکوں میں بھی شمار ہوتا ہے اور اس کے خزانے میں 32 اشاریہ 224 ٹریلین ڈالرز بھی ہیں جب کہ ہم ایک ایک بلین ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے جوتے چاٹ رہے ہیں میاں شہباز شریف بھکاری اعظم بن کر در در بھیک مانگ رہے ہیں اور یہ اپنی اس کارکردگی پر خوش بھی ہیں سوال یہ ہے چین اور ہم میں آخر فرق کیا ہے؟ چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہونے کے باوجود ہم سے آگے کیسے نکل گیا؟ اس نے کسی دوسرے ملک کی مدد کے بغیر ترقی کیسے کر لی اور ہمیں پوری دنیا مل کر بھی ترقی خوش حالی اور استحکام کے راستے پر نہیں ڈال سکی کیوں! آخر وجہ کیا ہے؟ ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا بھی چاہیے اور اپنی حماقتوں کا تجزیہ بھی کرنا چاہیے۔
چین نے دراصل ترقی کے لیے چار کام کیے اور ہم بدقسمتی سے یہ نہیں کر سکے ہم بھی اگر واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں جلد یابدیر یہ چار کام کرنا پڑیں گے چین کا پہلا کارنامہ سیاسی استحکام ہے چین نے 1949 میں فیصلہ کر لیا تھا ہمارا سیاسی نظام سوشلسٹ ہو گا اور ملک میں صرف ایک پارٹی ہو گی اور بس۔ یہ سسٹم 1949سے بلاتعطل چل رہا ہے جب کہ ہم 76 برس بعد بھی اپنے لیے کسی سیاسی نظام کا تعین نہیں کر سکے ہم نے 1973میں پارلیمانی نظام کا فیصلہ کیا مگر ہم نے آج تک اس کی روح پر عمل نہیں کیا ہم اس کے اندر اسلام مارشل لا اور ہائبرڈ سسٹم کی ٹاکیاں لگاتے چلے گئے اور آج حالت یہ ہے وہ پارٹی جس نے بمشکل 22 سیٹیں حاصل کی تھیں اسے فارم 47 کی سیڑھی پر چڑھا کر حکومت دے دی گئی۔
ہماری وفاقی کابینہ میں صرف دو ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو واقعی عوام کے ووٹ لے کر آئے ہیں ایک احسن اقبال اور دوسرا رانا تنویر باقی سب فارم 47 ہیں چناں چہ پھر موم کی یہ کشتی عوام کو پار کیسے لگائے گی؟ ملک کے چاروں صوبوں کی حکومتیں بھی بندر بانٹ ہیں تمام بڑی پارٹیوں کو ان کے سائز کے مطابق مینڈیٹ دے کر صوبائی حکومتوں میں کھپا دیا گیا چناں چہ اس کا نتیجہ بھیک مانگنے کے علاوہ کیا نکلے گا؟ ہم نے آج تک کوئی حکومت چلنے بھی نہیں دی اس ملک کا ہر حکمران میاں شہباز شریف تھا وہ جب تک اقتدار میں رہا وہ بے چارا اپنی دھوتی سنبھالتا رہا اور جب حکومت دھوتی سنبھالتی رہے گی تو وہ کام کب اور کیسے کرے گی؟ دوسرا چین نے کسی بھی دور میں ریاستی رٹ اور سکل ڈویلپمنٹ پر کمپرومائز نہیں کیا چینی حکومت نے فوجی ٹریننگ کی طرح عوام کی ٹریننگ کی کسی شخص کو دائیں بائیں نہیں ہونے دیا لہذا لوگوں کے دلوں میں ریاست کا خوف بیٹھ گیا اور یہ اب جیب میں پتھر اور چاقو رکھتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں چین میں اگر صدر یا آرمی چیف کو بھی سرکاری نوٹس آ جائے تو ان کی ٹانگیں کانپ جاتی ہیں جب کہ ہم نے ریاست کی رٹ کو لیرولیر کر دیا۔
آج کوئی بھی شخص ریاست سے نہیں ڈرتا 9 مئی ریاستی رٹ کے خاتمے کی ایک مثال تھی اور ملک میں جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ بھی اس کی مثال ہے چین نے لوگوں کو ہنرمند بھی بنایا چین کی آبادی اس وقت ایک ارب43 کروڑ ہے ان میں سے کوئی بالغ شخص بے ہنر نہیں یہ لوگ جیل کے قیدیوں تک کو ہنر مند بناتے ہیں اور پھر انھیں پاکستان جیسے ملکوں میں سڑکیں اور ڈیم بنانے پر لگا دیتے ہیں اس طرح قیدیوں کی قید بھی پوری ہو جاتی ہے ریاست کو سرمایہ بھی مل جاتا ہے اور قیدیوں کی روٹی پانی کا خرچ بھی بچ جاتا ہے جب کہ پاکستان کے 80 فیصد لوگ مکمل بے ہنر ہیں اور باقی 20 فیصد موت کو کام پرترجیح دیتے ہیں آپ ان سے ذرا کام کروا کر دکھا دیں ہماری یونیورسٹیوں سے نکلنے والے ہیرے تک بے ہنر ہوتے ہیں یہ ڈگری کو سونے کی کان سمجھ رہے ہوتے ہیں لہذا ہمارے پڑھے لکھے لوگ ان پڑھوں سے زیادہ نالائق ہیں۔
چین کا تیسرا کارنامہ بزنس فرینڈلی انوائرمنٹ ہے چین میں آج بھی انڈسٹری کے لیے بجلی فری ہے کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ کوئی بھی کام کر سکتا ہے اور حکومت اسے فل سپورٹ کرے گی جب کہ ہمارے ملک میں نوکری سے محبت اور بزنس سے نفرت کی جاتی ہے آپ کسی پاکستانی بزنس مین سے مل لیں آپ کو وہ بیمار ملے گا کیوں؟ کیوں کہ ہمارا سسٹم بزنس مینوں کو دو تین سال میں اسپتالوں تک پہنچا دیتا ہے۔
صدر سے لے کر عام شخص تک بزنس مینوں کو چور کہتا ہے اور اسے جوتے مارنا اور اس کی انا کچلنا اپنا فرض سمجھتا ہے چناں چہ پھر یہاں سرمایہ اور خوش حالی کیسے آئے گی اور چوتھا کمال چین نے پورے ملک کو ایک ہی وقت میں تبدیل کرنے یا خوش حال بنانے کی کوشش نہیں کی یہ لوگ ایک سائیڈ سے شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ شہر درشہر ملک کو تبدیل کرتے چلے گئے جب کہ ہم ایک ہی وقت میں پورا ملک کھول کر بیٹھ گئے اور اس کا یہ نتیجہ نکلا ہم 76 سالوں میں کوئی ایک شہر یا علاقہ بھی مکمل طور پر ڈویلپ نہیں کر سکے ہم 24 کلومیٹر کے اسلام آباد کو بھی آئیڈیل اور مکمل شہر نہیں بنا سکے دوسری طرف چین نے 80 فیصد ملک ماڈرن کر دیا۔
ہم اگر آج بھی سنبھل جائیں عقل کو ہاتھ ماریں اور بندے بن جائیں تو ہم دس بیس سال میں ترقی کی شاہراہ پر آ سکتے ہیں لیکن مجھے یہ کام مشکل دکھائی دے رہا ہے کیوں کہ یہاں ایک شخص جیل اور دوسرا وزیراعظم ہاس میں بیٹھ کر ملک کی مت مار رہا ہے اور دونوں اپنے آپ کو تیس مار خان سمجھ رہے ہیں چناں چہ پھر ملک کیسے اپنے قدموں پر کھڑا ہو گا؟ میرا خیال ہے ہم چین ہی سے پوچھ لیتے ہیں!
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس