وارث میر کون ہے؟ ’’وہ پاکستان کی جمہوریت کا استعارہ ہے، وہ ملک میں آئین کے تحفظ کا نشان ہے، جبر و استبداد اور اسلام کی آمرانہ تعبیروں کے خلاف جدوجہد کا مینارہ ہے، وہ جھوٹی اور نام نہاد حب الوطنی کے نام سے میڈیا پر پابندیوں کے خلاف ایک ستون ہے، وہ ملک میں مذہبی پیشوائیت، تنگ نظری اور قدامت پسندی کے خلاف بغاوت کا نام ہے۔‘‘
وارث میر نہ ہوتا، عاصمہ جہانگیر، دیگر جمہوری اور سیاسی کارکن نہ ہوتے تو آج عورت کی گواہی آدھی ہوتی۔ وارث میر نہ ہوتا تو مذہب کی گمراہ کن تشریح اور شریعت بل کی کارفرمائی ہوتی کوئی جرنیل خلیفہ ہوتا یا کوئی مولانا جرنیل بنا ہوتا،اگر وارث میر نہ ہوتا تو ادب میں آزادی فکر کا گلا گھونٹا جا چکا ہوتا،ضیائی فکر کا اندھیرا ابھی تک چھایا ہوتا،اگر وارثی فکر اس اندھیرے کو اجالے میں تبدیل نہ کرتی تو شائد آج تک مجلس شوریٰ کی کسی نئی شکل میں پسندیدہ لوگ ایوانوں میں بٹھائے جا رہے ہوتے ۔وارث میر میڈیا پر پابندیوں کے خلاف قلمی جہاد نہ کرتے تو شاید باقی 56اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سینسر کی پابندیوں کو عین اسلام اور عین حب الوطنی قرار دے دیا گیا ہوتا اگر وارث میر سٹینڈ نہ لیتے تو شاید آج بھی وہ ژولیدہ فکری عام ہوتی کہ سائنس پڑھنا غلط، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال حرام اور عقل سے کام لینا خلاف اسلام ہے ۔وارث میر نے ہر موضوع پر اسلامی حوالوں سے ثابت کر دیا کہ ترقی، علم اور ٹیکنالوجی تو ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔
وارث میر نہ ہوتا تو قتویٰ فروش مولوی، ضمیر فروش ادیب، خوشامدی صحافی، نظریہ ضرورت کے وارث جج اور آئین شکن جرنیل آج بھی جعلی ترتیب دیئے گئے معاشرے کے ہیرو ہوتے ۔وارث میر نے کہیں خوشامد کے بت کو توڑا تو کہیں ضمیر فروشی کا پردہ چاک کیا، کہیں نظریہ ضرورت کو ننگا کیا اور کہیں آئین توڑنے والے جرنیلوں کو للکارا، کبھی انہوں نے مذہب اور جہاد کی غلط تشریحات کو دلائل سے شکست دی اور کہیں انہوں نے حقوق ِنسواں کے مخالفوں سے لڑائی لڑی اور کہیں وہ انسانی حقوق کی جدوجہد میں پیش پیش رہے۔ وہ پکار پکار کر کہتے رہے لکھنے والے کا قلم قوم کی امانت ہوتا ہے۔ ان کا ایمان تھا کہ سچ لکھنے کے لئے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھنا پرتا ہے وہ یقین رکھتے تھے کہ جدید ریاست کی بنیاد روشن فکری اور ترقی پسندی پر رکھنا پڑے گی وہ مسلمان معاشروں میں جدیدیت اور ترقی پسندانہ سوچ کے حامل دانشوروں کے مداح تھے ان کی مثالیں دیکر سب کو قائل کرتے تھے کہ مستقبل کا راستہ عقل اور سائنس ہے۔
وارث میر نہ ہوتا تو کون لکھتا ’’پاکستان کے مامے اور صوبائی خود مختاری‘‘ وارث میر نہ ہوتا تو اٹھارہویں ترمیم کیلئے پنجاب کا ذہن کیسے تیار ہوتا، وارث میر جیسے اہل فکر اور دانشور نہ ہوتے تو پاکستان میں کیسے یہ احساس ہوتا کہ ہم بنگالیوں کے ساتھ زیادتیاں کرتے رہے ہیں اور اب بھی ہم چھوٹے صوبوں کو برابری کا حق دینے میں گریزاں رہتے ہیں۔ وارث میر ہی تھے جنہوں نے آج کی FAKE NEWSکے فتنے کو جھوٹے ذرائع ابلاغ کے نام سے مضمون لکھ کراس کی اس زمانے میں بیخ کنی کی جب ضیائی مارشل لاء کی پناہ میں جمہوری جدوجہد کے خلاف جھوٹ کے پلندے تیار کرکے انکی تشہیر کی جاتی تھی۔
میری طالب علمانہ رائے میں دانشور وہ شخص ہوتا ہے جو معاشرے کا تجزیہ کر کے اپنے علم وشعور اور دانش و تحقیق سے اسکی اصلاح کا راستہ متعین کرتا ہے۔ وارث میر معاشرے کا ناقدانہ جائزہ لیکر بے خوفی اور جرات سےتحقیق اور دانش کے اسلحے سے مسلح ہو کر جو کہتے رہے وہ آج سچ ثابت ہو رہا ہے اور مستقبل ان کے تجزیوں کو مزید نمایاں کر دے گا۔ فرانس عقل وخرد کا مرکز رہا ہے وارث میر کے بہت سارے مضامین میں وہاں عقل اور شعور کے افروز کی کہانیاں درج ہیں۔ اسی فرانس کا واقعہ ہے کہ الجزائرمیں فرانسیسی فوجیں ظلم ڈھا رہی تھیں تو وہاں کے نامور دانشور ژاں پال سارتر نےاس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ڈیگال کو اس کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ سارتر کو جیل بھیج دیا جائے تو ڈیگال نے جو جواب دیا وہ سونے میں تولنے کے قابل ہے ڈیگال نے کہا ’’سارتر تو فرانس ہے میں فرانس کو جیل میں کیسے ڈال سکتا ہوں؟‘‘ وارث میر جیسے ہمارے روشن خیال دانشور ہی اصل پاکستان ہیں، کاش سرکار دربار میں ان کے مشوروں کو ہر وقت سنا جائے، وقت گزر جاتا ہے تو سب مانتے ہیں کہ دانشور درست کہتے تھے لیکن اس وقت نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔
فرض کریں کہ وارث میر آج زندہ ہوتے تو یہ ضرور لکھ رہے ہوتے کہ ملک میں آئین کی عملداری ہونی چاہئے، جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق نافذ العمل ہونا چاہئے۔ میڈیا کو بین الاقوامی معیاروں کے مطابق آزاد ہونا چاہئے۔ مذہبی انتہا پسندی کا تدارک کرنا چاہئے ،اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر ریاست کو اپنی پوری طاقت استعمال کرنی چاہئے۔ وہ ہوتے تو عدلیہ کو مشورہ دے رہے ہوتے کہ نظریہ ضرورت کی بجائے آئین کی وہ تشریح کریں جس میں جمہوری آزادیاں مضبوط ہوں تا کہ آئین سازوں کی جو اصل منشا تھی اس پر عملدرآمد ہو، من مانی تشریحات اور کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیر اعظموں کو کھڑے کھڑے گھر بھیجنے کی روایت ختم ہونی چاہئے۔ وہ ہوتے تو آج بھی مقتدرہ سے کہہ رہے ہوتے کہ فوج کا آئینی حدود سے نکل کر سیاست میں مداخلت کرنا غلط ہے اور اسی مداخلت سے ملک کا نظام بگڑنے کی ابتدا ہوئی تھی، وہ زندہ ہوتے تو دانشوروں اور صحافیوں کو بھی منع کر رہے ہوتے کہ دشنام، گالی اور جھوٹ کی مدد سے پراپیگنڈا نہ کریں بلکہ سچ کا دامن تھامیں، وہ شاید یہ بھی درس دے رہے ہوتے کہ گھٹن ،حبس اور دباؤ ہو تو کھل کر بولنا چاہئے کیونکہ معاشرے کو خیالات کی تازہ آکسیجن نہ ملے تو وہ مردہ ہو جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی صحت جاننی ہو تو دیکھنا چاہئے کہ کیا وہاں تنقیدی آوازیں موجود ہیں یا نہیں اگر وہ آوازیں سنیں تو سمجھیں کہ ہم ابھی زندہ ہیں اور اگر یہ آوازیں کم ہو جائیں، دبا دی جائیں یا خاموش کر دی جائیں تو پھر وہ معاشرہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ مارشل لاء کے جبر کے خلاف وارث میر کی لڑائی سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں کی قربانیاں ہی وہ اصل وجہ تھیں کہ جمہوریت بحال ہوئی۔ آج کل پھر جمہوری آزادیوں پر کئی ننگی تلواریں وار کرنے کو ہیں اس لئے ہمیں وارث میر اور ان کی فکر کو ہمہ وقت یاد رکھنے اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں وارث میر ہی کی وساطت سے صدر پاکستان آصف علی زرداری سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ زمانہ حال میں آئیں تو آج کی سیاسی تصویر بھی کچھ دلکش نہیں ہے۔ آپ مفاہمت کے بادشاہ تصور کئے جاتے ہیں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کےمابین نفرت اور لڑائی کے دور میں آپ نے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے جدہ جاکر انتقام کے دائرے کو توڑ ڈالا ،مفاہمت کی اسی سوچ نے چارٹر آف ڈیموکریسی کی راہ ہموار کی ،محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس آنے سے پہلے ایک دانشورانہ اور فاضلانہ کتاب ’’مفاہمت‘‘ کے نام سے لکھی ۔اس تقریب سے فائدہ اٹھا کر کہنا چاہتا ہوں کہ مفاہمت کا بادشاہ خاموش کیوں ہے جبکہ مفاہمت کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے، آپ نے ’’پاکستان کھپے‘‘ سے لیکر اب تک جوڑنے کی بات کی ہے پاکستان کو آج پھر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ جس طرح آپ ظلم و ستم اور قید و بندکی صعوبتوں سے گزرتے رہے وہ غلط تھا، آج یہی سب کچھ کسی اور کے ساتھ ہو رہا ہے تو یہ بھی غلط ہے۔ امید ہے کہ جمہوریت کی مضبوطی، آئین کے تحفظ اور اداروں کی سربلندی کیلئے آپ یہ مفاہمتی کردار ضرور ادا کرینگے۔
(یہ مضمون وارث میر مرحوم کی برسی پر الحمرا ہال میں صدر آصف علی زرداری کی موجودگی میں پڑھا گیا)
بشکریہ روزنامہ جنگ