عوام پاکستان پارٹی : تحریر سلیم صافی


ہم جیسے دوست منع کرتے رہے لیکن وہ باز نہیں آئے اور بالآخر انہوں نے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھ دی۔ نام عوام پاکستان پارٹی ہے لیکن بنیادی طور پرتین خواص (شاہد خاقان عباسی، سردار مہتاب احمد خان اور مفتاح اسماعیل) ہی اس پارٹی کے موجد وکرتا دھرتا ہیں۔ میرے لئے ان کی اس کاوش پر تبصرہ کرنا بڑا مشکل ہے کیونکہ تینوں سے انتہائی قریبی تعلق ہے۔ تینوں کا میں نہایت قدردان ہوں۔ سردار مہتاب نے جنرل مشرف کے دور میں بڑی بہادری اور جوانمردی سے جیل کاٹی جبکہ شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل نے عمران خان کے دور میں۔ تینوں پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ تینوں عزت دینے والے لوگ ہیں اور اپنی عزتوں کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ تینوں امیر کبیر ہیں لیکن سادہ زندگی گزارتے ہیں اور محنت پر یقین رکھتے ہیں۔ تینوں میں اپنے اصولوں کی خاطر کھڑا ہونے کی صلاحیت بھی ہے ۔ سردار مہتاب جب وزیراعلیٰ تھے تو وزیراعظم کے داماد سے ٹکر لی۔ شاہد خاقان بطور وزیراعظم ایک روز کے لئے بھی وزیراعظم ہاؤس میں نہیں ٹھہرے لیکن کبھی اس کی تشہیر نہیں کی ۔ مفتاح اسماعیل نے بطور وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور بالالفاظ دیگر میاں نواز شریف کو ناراض کیا۔ تاہم میرے نزدیک ان تینوں نے پہلے مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر اور پھر اپنی پارٹی بنا کر کچھ اچھا نہیں کیا۔ بڑی جماعتوں میں پہلے سے اچھے لوگوں کا فقدان ہے اور وہ اپنی جماعت میں رہتے تو تین اچھے لوگ مسلم لیگ(ن) میں کسی نہ کسی لیول پر اثر انداز ہوکر مثبت کردار ادا کرتے۔ اپنی پارٹی بنا کر انہوں نے یوں زیادتی کی کہ میرے خیال میں ان کے وسائل اور صلاحیتیں بے جا ضائع ہوں گی اور بوجوہ وہ اپنی جماعت کو عوام کی مقبول جماعت نہیں بناسکیں گے۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ پاکستان میں چند بنیادوں پر جماعتیں بنتی ہیں ۔ یہاں لوگ شخصیت کو دیکھ کر اس کے پیچھے چلتے ہیں اور اس شخصیت کے ہاں کرشمہ ہونا ضروری ہے ۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو، خان عبدالغفار خان، نواز شریف اور عمران خان وغیرہ۔ شاہد خاقان عباسی صاحب بے پناہ خوبیوں کے حامل ہیں لیکن کرشماتی شخصیت کے مالک نہیں ۔کرشمے کا فرق ہوسکتا ہے جیسے بھٹو اور غفار خان کے ہاں ایک طرح کا کرشمہ تھا اور نواز شریف اور عمران خان کے ہاں کسی اور طرح کاکرشمہ ہے لیکن لوگ ایسے ہی لوگوں کے پیچھے چلتے ہیں اور اگر وہ نہ ہو تو جنرل حمید گل ہو یا مرزا اسلم بیگ یا کوئی اور عوام کے دلوں میں اپنا گھر نہیں کرسکتے ۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو عوام پاکستان پارٹی کا بڑی جماعت بننا قرین قیاس نظر نہیں آتا۔یقین نہ آئے تو نوابزادہ نصراللہ خان کی مثال سامنے رکھ لیجئے۔ ان جیسے بڑے سیاستدان بہت کم پیدا ہوتے ہیں لیکن کرشمہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ مقبول عوامی جماعت نہ بناسکے۔

دوسرا طریقہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے سہارے جماعتوں کے قیام کا رائج ہے ۔ وہ جماعتیں بناتی ہیں جو یا تو مسلم لیگ (ق) کی طرح کچھ وقت کے بعد بکھر جاتی ہیں یا پھر ان کے سرکردہ رہنما نواز شریف اور عمران خان کی طرح عوامی ڈگر پر چل پڑتے ہیں ۔ اس وقت تک کی ہماری معلومات کے مطابق عوام پاکستان پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ بھی حاصل نہیں ۔ یوں بھی اس کا اقتدار میں آنا ممکن نہیں۔

پاکستان میں تیسری قسم کی جماعتیں مذہبی جماعتیں ہیں جو مسلک اور فقہ کی بنیاد پر بنتی ہیں (سوائے جماعت اسلامی کے) ۔ وہاں کوئی بڑی علمی شخصیت کھڑی ہوجاتی ہے اور لوگ مسلک یا فقہ کی بنیاد پر ان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ۔ اب ظاہر ہے اس معیار پر بھی عوام پاکستان پارٹی پوری نہیں اترتی کیونکہ تینوں معمار نہ گدی نشین ہیں اور نہ فرقہ پرستی پر یقین رکھتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں نئی جماعت کی گنجائش بھی نہیں ۔ سوسائٹی حد درجہ پولرائز ہوچکی ہے اور قومی سطح پر تین بڑی جماعتوں ( پی ٹی آئی، نون لیگ اور پیپلز پارٹی) کے درمیان مقابلہ ہے جبکہ باقی قوم پرست یا پھر مذہبی جماعتیں سرگرم عمل ہیں اور ہر ایک سے اس کا کارکن جذباتی حد تک جڑا ہوا ہے۔ اس تناظر میں بھی عوام پاکستان پارٹی کا عوامی سطح پر مقبول جماعت بننا ممکن نہیں۔

مکرر عرض ہے کہ یہ تینوں شخصیات مجھے بہت عزیز ہیں اور ان کی صلاحیتوں کے بے جا ضائع ہونے کا مجھے ہمیشہ دکھ رہے گا جبکہ وہ جس راستے پر چل نکلے ہیں وہ ایک کار لاحاصل نظر آتا ہے ۔پہلے تو انہیں مسلم لیگ (ن) میں رہ کر اسے صحیح ڈگر پر لانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی لیکن اگر وہاں رہنا محال ہوگیا تھا تو پھر پارٹی بنانے کی بجائے بہتر ہوتا کہ پیر فاروق بہاوالحق شاہ کی تجویز پر عمل کرتے ۔ وہ ایک سیاسی اکیڈمی بناتے ۔ اس میں مختلف ایشوز پر غیرجانبدار تجزیہ کرکے سیاسی جماعتوں اور قوم کی رہنمائی کرتے ۔نوجوان نسل کوجذبات کی بجائے منطق اور دلیل کی طرف لاتے اور اپنے تجربات سے سیاستدانوں اور قوم کو مستفید کرتے ۔ سیاسی جماعتیں پاکستان میں تھوک کے حساب سے موجود ہیں لیکن سیاستدانوں اور نوجوانوں کی سیاسی تربیت کا کوئی ادارہ موجود نہیں ۔ یہ تینوں شخصیات اپنے ساتھ ، اپنے جیسے کچھ اور لوگوں کو لے کر سیاسی اکیڈمی کے قیام کے ذریعے قوم پر یہ احسان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔اب بھی وقت ہے اور بہتر ہوگا کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کو سیاسی اکیڈمی میں بدل لیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ