آج9 جولائی ہے، میرے عزیز دوست، استاد، ماہر نفسیات، صاحب دانش اور صاحب السیر ڈاکٹر خالد سہیل آج ٹھیک بہتر برس کے ہو گئے۔ 9 جولائی 1952کو پیدا ہو کر خیبر میڈیکل کالج پشاور سے تعلیم پانے کے بعد پانچ دہائیوں سے دور دیس بسرام کرنے والے خالد سہیل نے کیسی تخلیقی، محبتوں سے لبریز، رنگوں میں ڈوبی اور حرف و دانش میں شرابور زندگی گزاری ہے۔ آج یار عزیز کا کچھ ذکر رہے۔ اس سے پہلے مگر اک رسم ملاقات بھی ہے۔ سو ایک گریز کے تان پلٹے سے ہوتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے قلم بدست معانقہ تبریک کریں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ جوش صاحب کا گلہ اس درویش کے ملال سے ہمکنار ہو گیا ہے۔ نسیان مجھے لوٹ رہا ہے یارو! چشم و گوش میں جزوی معذوری ، آرزوئے لب و دندان سے محرومی پر اک زمانہ بیت گیا۔ دست لرزاں اور پائے لغزش سے تو ایک معمولی دماغی عارضے کے ہاتھوں نوجوانی ہی میں واسطہ پڑ گیا تھا مگر زندگی کا راستہ کاٹنا تو تھا عدمؔ۔ سو کٹ رہا تھا۔ اب جو وقفے وقفے سے حافظے کی روشنی چلی جاتی ہے، عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے۔ آدھا مصرع یاد آتا ہے تو شعر بھول جاتا ہوں۔ جملہ جھلملاتا ہے تو مصنف کا نام استحضار نہیں ہوتا۔ مصنف کا نام یادداشت کی تختی پر روشن ہوتا ہے تو متعلقہ کتاب نہیں ملتی۔ آج مگر خوشگوار تجربہ رہا۔ محترم مختار مسعود کی ایک سطر یاد آئی۔ اٹھا، درست الماری میں ٹھیک جگہ پر ہاتھ رکھا، کتاب مل گئی اور کھولی تو مطلوبہ جملہ جگمگا رہا تھا، ’خدایا، اگر عمر لمبی دے تو بڑھاپا خوشگوار دینا۔‘ درویش اس دعا کو یوں پڑھتا ہے، ’خدایا، اگر دوست نصیب ہوں تو ایسے جن میں اختلاف رائے کا ظرف پایا جائے۔ خیر گزری کہ یہ دعا مستجاب ہوئی۔ خوش قسمتی سے عمر بھر ایسے ہی اساتذہ اور احباب سے واسطہ رہا جو صاحب الرائے بھی تھے اور اختلاف کے سلیقے سے بہرہ مند بھی تھے۔ نتیجہ یہ کہ تلخ کامی کا تجربہ نہیں رہا، کچھ تعلیم ہوتی رہی۔
ڈاکٹر خالد سہیل زود نویس ہیں۔ مغربی صاحبان دانش کی طرح ہرروز کو گھنٹوں کے حساب سے کسی خاص سرگرمی سے منسوب کر رکھا ہے۔ نتیجہ یہ کہ متنوع اصناف علم و ادب میں اس تیز رفتاری سے کتاب پر کتاب نمودار ہوتی ہے جیسے مفتوحہ زمینوں پر اہل عساکر کی بستیاں آباد ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب کا عنوان ہے ’Creative Minority: Dreams and Dilemmas ‘۔لب لباب اس کا یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ ایک گروہ کو تخلیقی اقلیت کا عنوان دیا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خیال، علم اور فنون عالیہ کے راستے انسانیت کے امکان کی سرحدیں وسیع کرتے ہیں۔ اس راہ میں طرح طرح کی تکلیف اٹھاتے ہیں، دشنام سہتے ہیں اور اکثر اپنی دھن میں اس منطقے تک جا پہنچتے ہیں جسے عامتہ الناس ذہنی خلل سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ اقلیت وہ زرکمیاب ہے جو اپنے شب و روز کی آسودگی دان کر کے نئے راستے تراشتی ہے۔ میکسم گورکی نے Lower Depths میں کہا تھا کہ دنیا میں آج جو بھی اچھا ہے وہ اسی مصلوب گروہِ قلیل کے دست و دماغ کا کرشمہ ہے۔ دوسرے انبوہ کو ڈاکٹر صاحب روایتی اکثریت قرار دیتے ہیں جو بخشندہ اور پامال راستوں پر قدم مارتے عرصہ حیات پورا کرتے ہیں اور تاریخ کے ساحلوں پر کوئی نشان چھوڑے بغیر رخصت ہو جاتے ہیں۔ نیاز مند کو ڈاکٹر صاحب سے جزوی اختلاف ہے۔ تخلیقی اقلیت کے بارے میں خالد سہیل کی تشخیص درست ہے۔ اس اقلیت سے باہر بسنے والوں کو یہ درویش مزید دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ان انسانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی اصل میں نیک ، محنتی اور دیانت دار ہے۔ محبت کرتی ہے اور محبت کی آرزو مند رہتی ہے۔ خالد سہیل کی بیان کردہ ’روایتی اکثریت ‘ میں بھی ایک اقلیت پائی جاتی ہے جو استحصال ، ناانصافی اور ظلم کے ذریعے وسائل پر ناجائز اختیار کی تلاش میں رہتی ہے۔ جنگ کا جواز تراشتی ہے۔ مفروضہ نسلی درجہ بندی کی مدد سے فیصلہ سازی پر اجارہ قائم کرتی ہے۔ عقیدے کے نام پر دیواریں کھڑی کرتی ہے۔ نظریاتی اصابت کی آڑ میں من و تو کا امتیاز قائم کر تی ہے۔ سیاست کو اجتماعی فراست کے مکالمے کی بجائے سیاہ اور سفید کی بساط میں تبدیل کرتی ہے۔ جرم اور سازش کے دھندلے منطقوں میں ہنسی کے امکان کو آنسوؤں کی تلخی بخشتی ہے۔ ان خسروان خود معاملہ کی کرامت سے کرہ ارض پہ قحط پیدا ہوتے ہیں۔ قابل علاج افتادگان خاک موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تخلیقی اقلیت کا حقیقی اختلاف سادھارن انسانوں کی اکثریت سے نہیں ، نفرت ، تفرقے ، طاقت، جہالت اور ظلم کے کارندوں سے ہے۔
طالب علم نے زندگی کا طویل عرصہ اسی سوز و ساز میں خرچ کیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ شخصی آزادیوں پر پابندیاں لگائے بغیر معاشی انصاف کی کیاری کو کیسے وسعت دی جائے۔ اس سوال کے بہت سے جواب ممکن ہیں۔ میری رائے میں عورت اور مرد میں امتیاز کرنے والی دنیا ایک بنیادی ناانصافی پر کھڑی ہے۔ مردانہ بالادستی وہ بدترین ناانصافی ہے جس سے استحصال کی ثقافت جنم لیتی ہے۔ کیا آپ نے غور فرمایا کہ اجتماعی پسماندگی اور صنفی امتیاز میں ناگزیر تعلق ہے۔ کرہ ارض پر عورت رشتوں ، آباد بستیوں اور ہنستے بچوں کا نشان ہے۔ مردانہ بالادستی کا خیال خام حادثہ پیدائش کی بے بنیاد دیوار پر کھڑا ہے۔ اگر ماؤں کو فیصلہ سازی میں برابر کا حصہ ملے تو ہماری دنیا میں ناانصافی اور ظلم کی شرح کو کم کیا جا سکتا ہے۔ کوئی ماں اپنے بچوں کو جنگ کے لیے نہیں بھیجے گی ۔ کوئی ماں نہیں چاہے گی کہ اس کے بچے تعلیم ، غذا ، لباس اور چھت سے محروم ہوں۔ وہ روزگار ، محبت اور آسودگی سے محروم رہیں۔ میں اپنے دوست خالد سہیل کو ’بڑھتی عمروں کی خوشخبری ‘پر دل سے مبارک دیتا ہوں اور چاہوں گا کہ میں نے ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے نیلے آسمان تلے سفید بادلوں میں ہموار پرواز کا جو خواب دیکھا ہے وہ اس پر اپنی بے بدل بصیرت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ