ڈاکٹروں سے ٹیکس کون لے گا؟ … تحریر : مزمل سہروردی


آج کل بجٹ کے بعد اس پر ناراضگی کا دور شروع ہے۔ تنخواہ دار طبقہ ناراض ہے کہ ان کی تنخواہوں پر ٹیکس میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ سرکار نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نجی اداروں میں تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اس طرح ٹیکس بڑھنے سے نجی اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں عملی طور پر کم ہو گئی ہیں۔ یکم جولائی سے جہاں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے وہاں تنخواہوں میں کمی ہوئی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے۔

اسی طرح بجلی کے نرخوں میں اضافہ پر بھی شور نظر آرہا ہے۔ لوگ بڑھتے بجلی کے بلوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ بجلی کے نرخ حقیقی طور پر ناقابل برداشت ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف سولر کی بھی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ اتنی مہنگی بجلی نہ تو صنعتوں کے لیے قابل برداشت ہے اور نہ ہی گھروں کے لیے قابل برداشت ہے۔ بجلی کے بل روز بروز ڈراؤنے خواب بنتے جا رہے ہیں۔ حکومت نے جو ٹیکس دے رہا ہے، اسی پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے۔ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس دے رہا ہے اسی پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ جو لوگ بجلی کے بل دے رہے ہیں، انھیں پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے، جو بجلی چوری کر رہے ہیں، ان کے لیے حکومت کے پاس فی الحال کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ کیا مہنگی بجلی سے اس کی چوری میں اضافہ نہیں ہوگا۔ جو ابھی تک بجلی چوری نہیں کر رہے وہ بھی بجلی چوری کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہیں۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ جولوگ ٹیکس دے رہے ہیں۔ ان پر بوجھ ڈالنا کوئی اچھی حکمرانی نہیں ہے۔ ہم تاجروں کے بارے میں بہت شور کرتے ہیں کہ تاجر ٹیکس نہیں دیتے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کا تاجر ٹیکس نہیں دیتا ہے۔ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے تاجر دوست اسکیم شرو ع کی گئی ہے لیکن کوئی خاص کامیابی نظر نہیں آرہی۔ تاجر ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی تاجروں کو ٹیکس کے نظام میں لانے کے لیے حکومت نے مراعات دی ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ اس بار بھی کوئی خاص کامیابی نظر نہیں آرہی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ حکومت کسی بھی شخص کو ٹیکس کلچر میں رجسٹریشن کے بغیر کاروبار کرنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے۔ جو دکاندار اور تاجر ریٹرن فائل نہیں کرتا اسے کاروبار کرنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جیسے کوئی ٹیکس دیے بغیر نوکری نہیں کر سکتا۔ ایسے ہی کوئی ٹیکس دیے بغیر کاروبار کیسے کر سکتا ہے۔ جیسے نوکری پیشہ لوگوں پر سختی کی جا رہی ہے ویسے ہی ان پر سختی ہونی چاہیے۔

لیکن آج میں کچھ ایسے طبقوں کی بھی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو ٹیکس نہیں دیتے اور ہماری حکومتوں نے ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے آج تک کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ یہ کوئی ان پڑھ لوگ نہیں ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس وقت عجیب منظر نامہ ہے جو ٹیکس نہیں دے سکتے ان سے لیا جا رہا ہے۔ جب کہ جو دے سکتے ہیں ان سے لینے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ پاکستان میں صرف تاجر ہی نہیں اور بھی کئی طبقے ٹیکس نہیں دے رہے اور ریاست نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

ایک مثال ڈاکٹرز کی بھی ہے۔ ہر گلی میں ہر محلے میں ڈاکٹر بیٹھا ہے۔ ہر پرائیویٹ اسپتال میں ڈاکٹر بیٹھا ہے۔ ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ہر ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرتا ہے بلکہ سرکاری اسپتالوں میں بھی ڈاکٹر مریضوں کا علاج اسی لیے نہیں کرتے کہ وہ چاہتے ہیں کہ مریض ان کے پاس پرائیویٹ پریکٹس میں آجائیں لیکن یہ ہزاروں نہیں لاکھوں ڈاکٹر ملک میں پرائیویٹ پریکٹس کر رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی پرائیویٹ پریکٹس پر کوئی ٹیکس نہیں دے رہا۔

ڈاکٹر پرائیویٹ فیس کی کوئی باقاعدہ رسید نہیں دیتا۔سب نقد کام ہے۔ ہزاروں روپے فیس لی جاتی ہے۔ کوئی باقاعدہ رسید نہیں دی جاتی۔ پرائیویٹ پریکٹس کی آمدن پر ڈاکٹر کوئی ٹیکس نہیں دیتا۔ جب کوئی رسید ہی نہیں تو کوئی ٹیکس بھی نہیں۔ یہ سب ڈاکٹر کر رہے ہیں۔ سو روپے سے لے کر پانچ ہزار روپے فی مریض لینے والا ڈاکٹر کوئی رسید نہیں دیتا۔ اس طرح ڈاکٹروں کی پرائیویٹ ٹیکس کی آمدن ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے۔ کوئی ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس پر ٹیکس نہیں دیتا۔ یہ سب کالا دھن ہے۔

تاجروں سے ٹیکس لینا مشکل ہے۔ سمجھ آتی ہے۔ زیادہ تر تاجر پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں۔ انھیں ٹیکس کی اہمیت کا علم نہیں۔ لیکن ڈاکٹر تو پڑھے لکھے ہیں انھیں تو ٹیکس کی اہمیت کا علم ہے۔ یہی ڈاکٹر جب باہر جاتے ہیں، بیرون ملک جاتے ہیں تو خوشی خوشی ٹیکس دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں۔ کیا ہمیں اندازہ ہے کہ سینئر ڈاکٹروں کی روزانہ پریکٹس ہزاروں نہیں لاکھوں ہے۔لیکن ایک روپیہ ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں۔ کیا پرائیویٹ پریکٹس پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر ٹیکس کی سب سے زیادہ شرح ہونی چاہیے۔

ڈاکٹروں کی پریکٹس کی آمدن کا مکمل ریکارڈ ایف بی آر میں ہونا چاہیے۔ جیسے ہوٹل کی ہر رسید ایف بی آر میں جاتی ہے۔ ایسے ہی ڈاکٹر کی پرائیویٹ پریکٹس کی فیس کا ریکارڈ ایف بی آر میں ہونا چاہیے۔ فیس کا ایک حصہ ٹیکس میں جانا چاہیے۔ یہ فیس ٹیکس سے مستثنی نہیں ہو سکتی۔ یہ آمدن ٹیکس سے باہر نہیں ہو سکتی۔ ہم تاجروں سے ڈرتے ہیں۔ وہ ہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔ ٹیکس کے لیے سختی کی جائے تو وہ ہڑتال کر دیتے ہیں۔

حکومت ان کی ہڑتال اور احتجاج سے ڈرتی ہے۔ اسی لیے تاجر دوست اسکیمیں لاتی ہے۔ کیا حکومت ڈاکٹروں سے بھی ڈرتی ہے۔ اگر ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر ٹیکس لگایا جائے گا تو وہ بھی ہڑتال پر چلے جائیں گے۔ وہ بھی احتجاج کریں گے۔

سرکاری اسپتالوں میں پہلے ہی ڈاکٹروں کی ہڑتالیں اور احتجاج درد سر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن کیا پرائیویٹ پریکٹس کی بھی ہڑتال کریں گے۔ آج تک تو ہم نے یہی دیکھا ہے کہ ڈاکٹر صبح سرکاری اسپتال میں ہڑتال کرتے ہیں اور شام کو پرائیویٹ پریکٹس پر پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ سرکار میں تو ہڑتال کے بعد بھی تنخواہ مل جاتی ہے۔ لیکن پرائیویٹ پریکٹس کے لیے مریض دیکھنا لازمی ہے۔ مریض کو دیکھے بغیر کوئی پیسے نہیں ملتے۔ بلکہ ایک اور بھی پہلو ہے جیسے ہی سرکاری اسپتالوں میں ہڑتال ہوتی ہے شام کو پرائیویٹ پریکٹس بڑھ جاتی ہے۔ وہاں رش بڑھ جاتا ہے۔ آمدن بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے ہم نے دیکھا ہے کہ ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کو سینئر کی حمایت حاصل ہوتی ہے کیونکہ ان کا فائدہ بھی ہو رہا ہوتا ہے۔

تاجروں کے ساتھ ڈاکٹروں سے بھی ٹیکس لینے کی مہم شروع کرنی ہوگی۔ ملک سے باہر سب سے زیادہ پیسے یہ ڈاکٹر لے کر جاتے ہیں۔ منی لانڈرنگ میں یہ ملوث ہیں کیونکہ سب سے زیادہ کالا دھن ان کے پاس ہے۔ کیش کی سب سے زیادہ ڈیل یہی کرتے ہیں۔ فیس نقد ، علاج نقد اور کہیں کوئی ریکارڈ نہیں۔ کیا کوئی ڈاکٹروں سے ٹیکس لینے کے لیے بھی کوئی ڈاکٹر دوست اسکیم لانی ہوگی۔ کیا کلینکس میں ایف بی آر کے افسر بٹھانے ہوں گے۔ کیا جو کلینک ٹیکس نہیں دیتا اس کو بند کرنا ہوگا۔ کچھ تو کرنا ہوگا کہ یہ ڈاکٹر ٹیکس دیں جو ملک کے لیے ضروری ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس