بقر عید سے پہلے عیدِ ادب … تحریر : کشور ناہید


آپ لوگ عنوان پڑھ کر حیران ہونگے کہ میں نے یہ اختراع کہاں سے لی۔ دراصل اکیڈمی آف لیٹرز نے کمال کر دکھایا۔ 134ادیبوں کو خضدار، چلاس اور ہر چھوٹے بڑے شہر سے اکٹھا کیا کہ ان سب لوگوں کو گزشتہ آٹھ سال میں منتخب کیا گیا۔ انکو مجوزہ انتخاب کے چیک بھی روانہ کردیئے گئے۔ مگر نہ کسی کو بلایا گیا نہ انکی تخلیقات بازار میں آئیں اور نہ انکے تراجم اردو میں کیے گئے ۔یہ بھاری پتھر اور طویل فہرست مہمان کوقا بل عمل بناتے ہوئے، سہ روزہ قومی کانفرنس منعقد کی۔ کمال تویہ تھا کہ ان میں سے بہت سے لکھنے والوں نے کبھی اسلام آباد نہیں دیکھا تھا۔ وہ ایک وقت میں دو اعزاز حاصل کررہے تھے۔ زہرہ آپا اور اسد محمد خاں، جو بہت کم نکلتے ہیں۔ نور الہدی شاہ کی ضد اور پھر پورے وقت انکی نگہداشت نجیبہ کے علاوہ نور اور ناصر جو اکیڈمی کے ڈی۔جی ہیں، ایسی ہنرمندی دکھائی کہ وہ تمام اسٹاف جن کو ہم سست کہتے تھے وہ تو رات کے دوبجے تک ادیبوں کی آو بھگت میں لگے ہوئے تھے۔ ایک شام ہمارے ان شاعروں کی ریکارڈنگ سنائی گئی جن کو دیکھ کر کبھی روئے اور کبھی ٹھنڈی سانس بھری۔ ان ساری صفات کے باوجود میری تشنگی انوکھی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ دور دراز سے مختلف قومی زبانوں کے ادیبوں کے تعارف میں ان کی تحریر کا ایک پیراگراف ہوتا، توہم جیسے کم علموں کوان علاقوں کے مسائل اور انداز تحریر سمجھ میں آتا۔ چلئے آنے والے توخوش ہوگئے۔ یہی بڑا کارنامہ ہے، اس خاتون کا اور ادارے کا کہ کم ازکم جمود تو توڑا۔پچاس برس ہونے کو آئے کہ اکیڈمی بنی تھی۔ ابھی تک نہ اسٹاف مکمل ہے اور اطلاعا عرض ہے کہ اس زبوں حالی کے باوجود 50فی صد بجٹ کاٹ لیا گیا ہے۔ پڑھے جانے والے مقالات میں نصیر احمد ناصر نے مصنوعی ذہانت کا موضوع چھیڑا تو بہت سے دوست اس ترکیب سے ناآشنا تھے اور ادب میں اسکی مشینی ضرورت کو، جذبوں اور احساس سے عاری ہونے کے باعث، سوال یہ اٹھایا کہ کیا زہرہ آپا کی نظم کے احساس کو یہ مشین اپنے اندر جذب کرسکے گی۔ بہرحال یہ سوال دنیا بھر میں ادیب اٹھارہے ہیں اور سائنس دان آج کے زمانے میں کمپیوٹر، روبوٹ کے علاوہ، مصنوعی ذہانت کو کمپیوٹرائزڈ زمانے کی ضرورت قرار دے رہے ہیں۔ ہمارے بچے غیر ممالک میں یہ موضوع پڑھ رہے ہیں۔

پاکستانی قوم سوچ رہی ہے کہ ہو نہ ہو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کا بجٹ بنایا گیا ہے۔ ورنہ حقیقی اعدادوشمار ایسے اندازوں کو قبول نہیں کرتے کہ کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا 133واں نمبر ہے۔ موجود صورت حال میں شمالی وزیر ستان میں لڑکیوں کے اسکول جلائے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں 35لاکھ مزدور جبری مشقت کا شکار ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مختلف ٹاورز بنانے کی بجائے اگر آدھی رقم صحت مراکز اور اسکولوں کی تعداد بڑھانے پر استعمال کی جائے تو شاید میرے گھر میں کام کرنے والی یہ نہ کہے باجی میں تواب ماچس بھی نہیں خرید سکتی کہ اس پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ فیکٹریوں کو جس طرح رئیل اسٹیٹ میں بدل کر، مزدور مزدور ہی رہا مگر ٹھیکیداروں کے وارے نیارے ہو گئے۔ ایک دوست نے لکھ کر بھیجا ہے میں تجھ کو بتاتا ہوں۔ تفسیر بجٹ کیا ہے، شمشیرو سناں اول، تعلیم وصحت آخر۔ یہ پڑھ کر ساہیوال اسپتال میں بچوں کی اموات پہ پہلے ڈاکٹروں کو سزائیں اور پھر؟ مت بتائیں کہ ابھی تو دھمکیاں اور جلوس عید کے بعد اور بارش کے بعد، اپنے عروج پر آئینگے۔ ابھی تو امام کعبہ نے کہا ہے قرآن کہتا ہے جو ظلم کرتا ہے، اسکی پکڑ ہو گی۔ کیا اس طرح بچوں کے دودھ پر 18فی صد ٹیکس لگانے والے پکڑے جائینگے ۔ دماغ بھی بہت خراب ہے۔ یاد کر رہا ہے کہ امریکہ نے1952میں پہلی دفعہ پاکستان کو امداد دی۔ پھر چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ یہ لکھتے ہوئے بلھے شاہ کا کافر کافر آکھدے کے بعد پورا شعر نہیں لکھ سکتی کہ بڑے صاحب ناراض نہ ہو جائیں، چلئے بجٹ پر بحث اس لئے ہمارے دائرہ کار سے باہر ہے کہ جو بجٹ صرف اور صرف اشرافیہ کیلئے ہو، اس پر سیاپا کیا کرنا۔ ہمارا مقدر بھگتنا ہے غربت سے لیکر اس لفاظی کو جو سو دنوں کی کامیابی کے نام پر پورے صفحے کے اشتہارات پر ہے مگر ایک بات میں سارے سیاست کے طفیلیوں کو بصد احترام کہنا چاہتی ہوں کہ بھٹو صاحب کے زمانے سے جو سیاسی نعرے ایجاد ہوئے تھے۔ وہ بہت بوڑھے اور بے معنی ہوگئے ہیں۔ عرفان صدیقی صاحب اس زمانے کے ارسطو ہیں۔ وہی کچھ تبدیلیاں ایجاد کریں تاکہ سن کر ذرا مزہ تو آئے۔ یہ جیک پاٹ تو کھولیں۔

اس طرح عید ہو یا بقر عید، میڈیا ایک ہی طرح سے خواتین کو کچن میں تین دن تک مصروف دکھاتا ہے۔ اسکے علاوہ ان تینوں دن مزاحیہ مشاعرے کے نام پر ناگفت اشعار سنائے جائینگے اور معصوم (بے وقوف) بچے ہنس ہنس کے بے حال ہونگے۔ میں ایسے تمام بچوں اور دوسرے فنکار بچوں سے کہونگی کہ اس وقت تو گرمی بہت ہے شام اور ویسے تو ہرشام جو فنکار بچے کسی محلے کسی سڑک پر کھڑے ہو کر خاص طور پر عید جیسے موقعوں پر سننے والوں میں سب لڑکے لڑکیاں، اور مجھ جیسے بڈھے بھی شامل ہوں تو ہمارے لوگوں کو ہنسنا آجائے ورنہ وہی ہوتا رہیگا کہ نوجوان بچے جیمز بانڈ کے بچے بنے گولیاں چلا تے اور عورتوں کے بیگ چراتے رہیں گے۔

آخر میں ثقافت کے وزیر اور نجیبہ سے گزارش کرونگی کہ ہم بڑا فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے ویسٹ لینڈ یا مارکیز کا ترجمہ کیا ،ہمارے ادب کا اگر کچھ ترجمہ ہوا ہے وہ دوسرے ملکوں کے ادیبوں نے اپنی زبان میں کیا ہے۔ کیا ایسی سبیل ہو سکتی ہے کہ ہم عالمی سطح کے پبلشرز کے تعاون سے پاکستانی ادیبوں کی تصانیف کو انگریزی اور دیگر زبانوں کے ذریعہ عالمی سطح پر پہنچائیں انڈیا میں سارے عالمی پبلشرز کے دفاتر ہیں۔ ہم اب تک سرکاری بے توجہی کا شکار ہیں۔ غصہ مت ہوں، غور کریں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ