لاہور(صباح نیوز) نائب امیر جماعتِ اسلامی اور سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ جمود کی شکار معیشت پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے سے معاشی حالات مزید خراب ہونگے،وفاقی حکومت نے 8ہزار50ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ مجموعی حجم کے 50فیصد کے برابر خسارہ اور 50فیصد سے زائد قرضوں اور سود کی ادائیگی پر مبنی بجٹ میں ٹیکسوں کا بڑا بوجھ حسبِ دستور تنخواہ دار طبقے پر ڈال کر مڈل کلاس کو عملا معاشرے سے ختم کردیا گیا ہے۔ اب ملک میں دو ہی طبقات باقی رہ گئے ہیں، ایک امیر اور دوسرا غریب۔
اِن خیالات کا اظہار نائب امیر جماعتِ اسلامی اور سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو اور ملاقات کے لئے آئے مختلف وفود سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ فی کس آمدنی، کرنسی کی قدر اور شرح نمو کے اعتبار سے پاکستان پہلے ہی دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ مجوزہ بجٹ اقدامات کے ذریعے وائٹ کالر ملازمت پیشہ اور چھوٹے کاروباری طبقہ کو کرش کرنے کی حکومتی پالیسی سے ملکی معیشت کرش ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جمود کی شکار معیشت پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے سے معاشی حالات مزید خراب ہونگے۔ چھوٹے کاروباری اور ہنر مند افراد پر بوجھ بڑھے گا تو وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہونگے۔ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے شاہانہ حکومتی اخراجات، دیگرغیر ترقیاتی اور غیر ضروری اخراجات میں نمایاں کمی کی بجائے عام شہریوں، چھوٹے کاروباری طبقے کے گلے پر چھری پھیرنا حکمرانوں کے انتخابی وعدوں سے کھلم کھلا انحراف اور عوام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پاکستانی قوم خودداری اور جفاکشی میں دنیا بھر میں اپنا نام اور مقام رکھتی ہے، بانی پاکستان قائد اعطم اور لیاقت علی خان نے پاکستان کو تعمیر و ترقی کے راستے پر گامزن کیالیکن بدقسمتی سے ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے ملک و قوم کو امریکہ اور بین الاقوامی سودی اداروں کی غلامی میں دھکیل دیا۔ آئی ایم ایف دستاویز کو بجٹ کا نام دے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دی جاتی ہے،گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام کیساتھ بجٹ کے نام پر مذاق جاری ہے۔ انہوںنے کہا کہ پی پی پی، ن لیگ، پی ٹی آئی نے قوم کو مایوسی اور اندھیروں کے سوا کچھ نہیں دیا، جماعتِ اسلامی ملک و قوم کے لیے امید کی کرن ہے۔
لیاقت بلوچ نے وزیرخزانہ کی پریس کانفرنس کو ناکامیوں کی داستان قرار دیتے ہوئے کہا کہ قوم کو خوشخبری دینے کی بجائے ناکامیوں کی داستانیں سناکر مزید مایوسی اور محرومی میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ بدترین شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضے لیکر اس کو اداروں میں مداخلت کی اجازت دینا ملک دشمنی ہے۔ حکمران آئی ایم ایف سے قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر مذاکرات کی جرات نہیں رکھتے،یہی وجہ ہے کہ ملک میں وزرائے خزانہ بھی باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں۔لیاقت بلوچ نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف سے لئے گئے 23 پروگراموں سے معیشت بہتر نہ ہوئی تو کیا 24 ویں پروگرام سے بہتر ہوجائے گی؟ 22 ارب ڈالر صرف اس سال اور آئندہ 3 سالوں میں 75 ارب ڈالر قرضوں اور سود کی مد میں حکومت نے ادا کرنے ہیں، جبکہ اس وقت قومی خزانے میں ادھار کے 9ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں، تو واجب الادا قرضوں اور سود کے لئے اتنی بڑی رقم کہاں سے آئے گی؟۔ انہوں نے کہا کہ پے درپے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی بدولت آج ہماری قومی آمدن کا 80 فیصد سے زائد قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے، اس لئے جب تک وفاقی شرعی عدالت کے واضح اور دوٹوک فیصلے کی روشنی میں ملکی معیشت کو سود کی لعنت سے پاک نہیں کیا جاتا، معیشت ٹھیک نہیں ہوگی۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ قائد اعظم نے ہمیں فلاحی ریاست کا تصور دیا، ہم نے پاکستان کو ٹیکس رجیم اور ٹیکس سٹیٹ بنادیا، تنخواہ دار طبقہ سے ہر سال ٹیکسز کی مد میں اربوں روپے سمیٹے جارہے ہیں لیکن بڑے زمینداروں، سرمایہ داروں پر کسی کو ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں ہورہی۔ پٹرولیم لیوی، مہنگی بجلی، مہنگی گیس، اشیائے خورد ونوش کی مسلسل بڑھتی قیمتوں اور اوور بلنگ نے غریب عوام کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز سے کئے گئے مہنگی بجلی کے ظالمانہ اور عوام دشمن معاہدوں کی وجہ سے آج قوم ان کرائے کے بجلی گھروں کو 2100 ارب روپے سالانہ صرف کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ یہی رقم اگلے سال بڑھ کر 2800 ارب ہوجائے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئی پی پیز کیساتھ کئے گئے مہنگی بجلی کے ظالمانہ معاہدے ختم کئے جائیں اور عوام کو سستی بجلی کی فراہمی کے لئے عرصہ دراز سے زیرالتوا پن بجلی منصوبوں اور متبادل ذرائع سے سستی توانائی فراہمی کے منصوبوں پر کام تیز کیا جائے۔