ایسی گھٹیاپریکٹس سپریم کورٹ میں ہوگئی ہے کوئی تیاری نہیں کرتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ایسی گھٹیاپریکٹس سپریم کورٹ میں ہوگئی ہے کوئی تیاری نہیں کرتا ہے،سوال سمجھنے کی کوشش توکرنا نہیںہے۔جو زمین حاصل نہیں کی اس کے مالک کیسے بن سکتے ہیں۔کون ساجادوہمارے پاس ہے کہ وہ آرڈربھی ہم کالعدم قراردے دیں جو ہمارے پاس چیلنج نہیں،وکیل آکر دکھڑے نہ روئیں بلکہ قانون کی باتیں کریںاور قانون تک رہیں۔ جوکیس ہمارے سامنے آتا ہے ہم اُس کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں کسی کو انگریزی توپڑھانے نہیں بیٹھا،آپ ایسے ادارے چلاتے ہیں کہ چیف جسٹس حکم دے گاتومیں ایسے کردوںگا، ایسے پاکستان کے ادارے چلاتے ہیں۔ کیا ہم گھر جاکردستک دے کر کہیں کہ جوآرڈرآپ نے چیلنج بھی نہیں کیا اس کو بھی کالعدم قراردے دیتے ہیں۔ ہم وہی آرڈر کالعدم قراردیںگے جوہمارے پاس چیلنج ہوگا۔جبکہ عدالت نے 64کنال4مرلے زمین کی خریداری کے معاملہ پر اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کے خلاف دائر درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل3رکنی بینچ نے سوموار کے روز 10کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے اللہ دتہ اورمسمات بشریٰ رضوان کی جانب سے محمد عظیم ، محمد عامر نواز کھچی اوردیگر کے خلاف زمین کی خریداری کے تنازعہ پر دائر دودرخواستوں پر سماعت کی۔ فریقین کی جانب سے ملک نورمحمد اعوان ،سید سلمان حیدر جعفری اور محمدحنیف خان نیازی بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ تھوڑے سے بنیادی فیکٹس تواپنے مئوکل سے پوچھ لیں، عدالت کی معاونت کاکیا معیاررہ گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم وکیل کو سمجھانے کے لئے کون سی زبان سیکھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیکٹس بتاتے ہوئے کیس پر بحث نہ کریں، فیصلے لکھنا بھی اتنا مشکل ہو گیا ہے۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیت ہوئے خارج کردی۔بینچ نے مقرب خان اوردیگر کی جانب سے اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزارکی جانب سے محمد اسماعیل خان خلیل بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کے خلاف کیوں دعویٰ دائر کیا ہے،کتنے کی زمین بیچی یا فری میںدی۔

اس پر وکیل کاکہناتھا کہ 33کنال 4مرلے زمین 18جون1990کو20لاکھ 51ہزارروپے میں بیچی جبکہ31کنال زمین 10لاکھ 75ہزارروپے میں 26جون 1990کو بیچی۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ 11نومبر1996کودعویٰ دائر کیا گیا۔وکیل کہہ رہے ہیں کہ وہ دعویٰ پڑھ دیتے ہیں ، بڑاتیر مارتے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کے بھائی نے دھوکہ دیا اس سے پیسے بھی نہیں مانگ رہے صاف لگ رہا ہے کہ آپ دھوکہ دے رہے ہیں، کوئی ادارہ آپ سے دھوکہ کیوںکرے گا، کہیں سے کیس جیتے ہویاہرجگہ ہارے ہو۔چیف جسٹس کا فیصلہ لکھواتے ہوئے کہناتھاکہ درخواست گزارکا دعویٰ، اپیل اورنظرثانی سب خارج ہوئیں۔درخواست گزارکے بھائی محمدسلیمان نے دو رجسٹرڈ سیل ڈیڈز کے زریعہ اوورسیز پاکستانیز کوزمین بیچی جو بیچنے کے مجاز تھے۔

درخواست گزارکے بھائی کے پاس پاورآف اٹارنی تھی جسے منسوخ کرنے کی کوئی درخواست دائرنہیں کی گئی۔اوورسیزپاکستانیز فاؤنڈیشن نے قبضہ لے لیااوراس پر تعمیرات کرلیں۔اس موقع پرجسٹس جمال خان مندوخیل کا درخواست گزارکے وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ اگر قبضہ آپ کے پاس ہے توپھر آپ انجوائے کریں۔ عدالت نے درخواست ناقاقبل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے چیف سیکرٹری ، پشاور اوردیگر کے توسط سے نیک عمل مرحوم کے لواحقین اوردیگرکے خلاف زمین کی ملکیت کے تنازعہ پر دائردرخواست پر سماعت کی۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل الیاس نے پیش ہوکربتایا کہ مدعا علیہ کی جانب سے 18درخت کاٹے گئے ہیں۔

جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ 6فٹ زمین کاتنازعہ ہے وہ درخواست کاٹ کر لے گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا درخت کاٹنے کے معاملہ پر مدعاعلیہ پر پرچہ کاٹا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سڑک کی تعمیر کے معاملہ پر 220فٹ زمین خالی رکھنا ہوتی ہے تاہم حکومت مالک نہیںبن سکتی۔چیف جسٹس کاکہناتھاکہ نوٹیفیکیشن سے کیا مالک بن جائو گے، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ زمین کے مالک بن گئے،جو زمین حاصل نہیں کی اس کے مالک کیسے بن سکتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ آپ اپنی 68فٹ چوڑی زمین لے لیں باقی اُن کی ہے۔چیف جسٹس کا کہناتھاکہ ہمیںنقشہ دکھائیںتاکہ ہم سمجھ توجائیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ 220فٹ زمین کی شرط نیشنل ہائی وے کے حوالہ سے ہے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہمیںترمیم شدہ قانون دکھائیں، ترمیم شدہ قانون کدھرہے وہ دکھائیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ ایسی گھٹیاپریکٹس سپریم کورٹ میں ہوگئی ہے کوئی تیاری نہیں کرتا ہے،سوال سمجھنے کی کوشش توکرنا نہیںہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہناتھاکہ اگرریاست کی زمین تھی تو68فٹ کیوں خریدی،پشاورہائی کورٹ کا 16جنوری2013کا حکم چیلنج نہیںکیا۔چیف جسٹس کاکہناتھاکہ پشاور ہائی کورٹ کے نظرثانی فیصلہ کوچیلنج کیا گیا اوراصل فیصلہ کو چیلنج نہیں کیا گیا۔عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ اگر قانون بدلیں تواس کوشامل کر کے لایاکریں تاکہ ہمیں پتا ہو۔