عدالت بیٹھ کرقانون نہیں بناسکتی۔ ہم کیاہوتا ہے، ہم بادشاہ ہوتا ہے، میں بولیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ عدالت بیٹھ کرقانون نہیں بناسکتی۔ ہم کیاہوتا ہے، ہم بادشاہ ہوتا ہے، میں بولیں۔اسلامی قانون میں کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں یہ ریاضی کی طرح ہے۔ نکاح نامہ عوامی دستاویز نہیں۔ جب جج اپنے طور پر چیزیں کرنے بیٹھ جاتے ہیں توبڑے مسئلے ہوجاتے ہیں۔انتقال کرنے کے بعد شرعی حصہ ہوتا ہے،ایک ہی چیز خاتون کیسے دوبہوئوں کو تحفہ دے سکتی ہے۔ جو سوال پوچھیں اس کا جواب نہ دیں، خداکاخوف کریں، شرعی حصہ، شرعی حصہ،یہ چیز کیا ہے۔

درخواست گزار کو افغانستان کی سپریم کورٹ جاناچاہیئے تھا، یا پاکستان کی یاایران کی سپریم کورٹ جانا چاہیئے تھا،کیا یہ معاملہ ہم نے دیکھنا ہے۔ جوچیز ہمارے سامنے چیلنج نہیں وہ ہم نہیں دیکھیں گے بلکہ ہم وہی چیز دیکھیں گے جو ہمارے سامنے چیلنج ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے  مختلف مقدمات کی سماعت کی۔ بینچ نے حاجی عبدالستار کی جانب سے مسمات شمیم اختر ، بابو شیر علی،حضرت عثمان اوردیگر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ جوچیز ہمارے سامنے چیلنج نہیں وہ ہم نہیں دیکھیں گے بلکہ ہم وہی چیز دیکھیں گے جو ہمارے سامنے چیلنج ہے۔

چیف جسٹس کا وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہناتھاکہ ذرہ سی جلدی کرلیں پلیز!،سیٹلمنٹ کمشنر کو دعویٰ میں پارٹی بنایا کہ نہیں۔ چیف جسٹس کا وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تھوڑے سے پیشہ وارانہ ہوجائیں، آپ کو پتا ہے کہ سپریم کورٹ میں کتنے ہزار کیسز پڑے ہیں،تھوڑی سی دلچسپی تواپنے پیشہ میں لیں۔عدالت نے وکیل کو مزید تیاری کی مہلت دیتے ہوئے قراردیا کہ آئندہ سماعت پر وکیل تیاری کرکے آئیں۔ بینچ نے مرزامحمد یوسف کی جانب سے مسعود احمد خان کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت درخواست گزار کی جانب سے معاذ اللہ برکنڈی بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کچھ بولئے ناں، چلائیں کیس۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بے کار باتیں کی بجائے بحث کریں ، صورتحال کو چھوڑیئے بس کیس بتادیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کو افغانستان کی سپریم کورٹ جاناچاہیئے تھا، یا پاکستان کی یاایران کی سپریم کورٹ جانا چاہیئے تھا،کیا یہ معاملہ ہم نے دیکھنا ہے، وکیل اپنے خلاف دلائل دے رہے ہیں، درخواست گزار خود ہائی کورٹ گئے ، ہم بھی اپیل خارج کردیتے ہیں، درخواست گزارنے خوداپنے پائوں پر کلہاڑی ماری، یاتو ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے کہ آپ کادائرہ اختیار نہیں بنتا ماتحت عدالت معاملہ واپس بھجوادیں، مہربانی کرکے اپنے مئوکل کے ساتھ یہ حشر نہ کریں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔جبکہ بینچ نے خالد حامد، مسمات امینہ شاہد، اوردیگر کی جانب سے مسمات نعیمہ اختر اوردیگر کے خلاف جائیدادکی تقسیم کے معاملہ پر دائر9درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ کل 6درخواستیں ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تھوڑے فیکٹس بتائیں، وکیل کاکہنا تھا کہ دو گھر ہیں ایک 500گزکا گھرF-8/4 میں ہے اوردوسرا گھر 1000گزکاF-10/4میں ہے۔وکیل کاکہناتھا کہ محمد آصف خان اور امیربیگم کے کل 8بچے ہیں جن میں 3بیٹے اور5بیٹیاں شامل ہیں۔وکیل کاکہنا تھا کہ شاہد اورخالد کا امینہ اوررابعہ کے ساتھ 29اپریل 1985کو ایک ہی دن نکاح ہوا، والد کی جانب سے دونوں بہوں کو20،20تولے سوناجس کی مالیت 40100روپے بنتی ہے ادا کیا گیا اور F-8/4کے گھر میں ایک تہائی ، ایک تہائی حصة نام کروایا جبکہ ساس امیر بیگم نے F-10/4کے پلاٹ سے دونوں بہوئوں کو شرعی حصة نام کروایا۔ وکیل کاکہنا تھاکہ 24اکتوبر2007کو دعویٰ دائر ہوا۔

وکیل کا کہناتھا کہ ایک مکان میں دوبھائی رہ رہے ہیں اوردوسرا مکان جو پہلے پلاٹ تھا اوربعد ازاں اس پر مکان تعمیر کیا گیا وہ کرائے پر دیا گیا ہے اورماہانہ کرایہ 1لاکھ 20ہزار ہے۔چیف جسٹس کاکہناتھاکہ انتقال کرنے کے بعد شرعی حصہ ہوتا ہے،ایک ہی چیز خاتون کیسے دوبہوئوں کو تحفہ دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہی چیز دونوں کو کیسے تحفہ دے رہی ہے، پھر دونوں تحفے خراب ہوگئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو سوال پوچھیں اس کا جواب نہ دیں، خداکاخوف کریں، شرعی حصہ، شرعی حصہ،یہ چیز کیا ہے۔وکیل کاکہنا تھاکہ ایک ہی بیٹی نے دعویٰ دائر کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ساس 100فیصدپلاٹ کی مالک توکیسے شرعی حصہ دے رہی ہے، یاتوساس کہتی آدھا ایک کودیا، آدھا دوسری کودیا،ایک بھائی کی اہلیہ کو دعویٰ دائر کرنا چاہیئے تھا کہ تحفہ میرابنتا ہے کیونکہ میرانکاح پہلے ہوا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ناقص تحفہ پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، اس پر کس طرح عملدآمد کروائیں گے، یا تو مشہور واقعہ کی طرح تلوار لے کرآئیں اورآدھا، آدھا بچہ کردیں ۔وکیل کاکہناتھاکہ دونوں خاوند اوردونوں بیویاں کیس کی سماعت کے دوران پیش ہوئے اور بیان ریکارڈکروائے۔وکیل کاکہناتھاکہ ایک بھائی فاروق کی شادی والدین کی وفات کے بعد ہوئی۔چیف جسٹس کا کہناتھاکہ عدالت بیٹھ کرقانون نہیں بناسکتی۔

چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ ترجمہ کرکے نہ بتائیں ہمیں تھوڑی بہت انگریزی آتی ہے۔چیف جسٹس کا کہناتھاکہ جب گواہی ریکارڈ نہیںہو گی تو جرح کیسے ہوگی۔چیف جسٹس وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہہ ہم کیاہوتا ہے، ہم بادشاہ ہوتا ہے، میںبولیں۔چیف جسٹس کاکہناتھاکہ اسلامی قانون میں کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں یہ ریاضی کی طرح ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ والدین 2000تک زندہ رہے دونوں نے اپنی زندگی میں یہ انٹریز چیلنج نہیں کیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یا سی ڈی اے سے ملکیت اپنے نام کرواتے یا ملکیت کادعویٰ دائر کرتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ وراثت کادعویٰ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نکاح نامہ عوامی دستاویز نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب جج اپنے طور پر چیزیں کرنے بیٹھ جاتے ہیں توبڑے مسئلے ہوجاتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نکاح نامہ موجود 6میں سے ایک بھی متعلقہ جگہ پر والدین نے دستخط نہیں کئے۔ عدالت نے درخواستیں خارج کرتے ہوئے بھائیوں کو دوماہ میں مکان خالی کرنے کاحکم دیا ہے۔جبکہ عدالت نے وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے)کو حکم دیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر دونوں مکان 3بھائیوں اور5بہنوں کے نام پر منتقل کئے جائیں۔عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر بھائی بہنوں کو حصہ کی رقم نہیں دیتے تو2ماہ بعد مکان بولی لگاکر بیچے جائیں۔