ججوں پر دائر مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوا … تحریر : وجیہ احمد صدیقی


اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک مقدمے کی سماعت میں ریمارکس دیے ہیں کہ پارلیمنٹ نے اربوں روپے کے کرپشن کیسز ختم کر دیے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ نیب ترامیم کی وجہ سے 100 سے زائد بڑے کرپشن کیسز ختم ہو چکے ہیں ۔انہوں نےپارلیمنٹ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس نے اربوں روپے کے کیسز ختم کر دیے ہیں ۔یہ ان کا نیب ترامیم پر تبصرہ تھا جس کا حق اور اختیار نیب کو حاصل تھا۔ واضح رہے کہ 6ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کو کالدام قرار دینے کے خلاف وفاقی حکومت سمیت دیگر متاثرین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم بحال کر دی تھی، اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عمران خان بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کے خلاف نیک نیتی سے درخواست دائر نہیں کی اور وہ نیب ترامیم کو آئین سے متصادم ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کےیہ جج صاحب نیب کے دائرہ اختیار کے حوالے سے بات کر رہے تھے اور یہ عمران خان کے موقف کی تائید کررہے تھے جس کو سپریم کورٹ نے رد کیا ہے ۔انہوں نے بظاہر پارلیمنٹ پر تنقید کی ہے لیکن یہ تنقید سپریم کورٹ پر معلوم ہوتی ہے بلکہ یہ اس کے فیصلے پر ایک ماتحت عدالت کے جج کی تنقید ہے ۔جج کو یہ حق نہیں حاصل ہے کہ اپنی سپرئیر عدالت کے فیصلے پر تنقید کرے یہ حق عوام کو حاصل ہے لیکن کسی ماتحت جج کو یہ حق حاصل نہیں ہےکہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر کھلے یا درپردہ تنقید کرے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ نیب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں قائم کیا گیا تھا ۔ بلکہ اس سے بھی پہلے احتساب بیورو بھی یہی کام کر رہا تھا یعنی وہ سیاسی انتقام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب کی وجہ سے قومی خزانے میں کتنی رقوم کا اضافہ ہوا ؟ اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ پرویز مشرف نے آفتاب شیر پاؤ کے خلاف کیس بنایا اور بلیک میل کرکےانہیں اپنی کابینہ میں بھی شامل کر لیا ،یعنی ان کے خلاف کرپشن کے کیسز تھے اور کرپشن کے کیسز کی بنیاد پر ایک کرپٹ آدمی کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ سیاسی انتقام کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پانامہ کیس میں صرف نواز شریف اور ان کا خاندان نشانہ بنا ۔جبکہ پانامہ لیکس میں 435 پاکستانیوں کے نام تھے ۔ ان کو چھوا تک نہیں گیا۔چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے صرف اور صرف نواز شریف اور جہانگیر ترین کو نااہل کیا تھا۔ صرف اس لیے کہ ان پر دباؤ تھا نیب ہمیشہ حکومت اور مقتدر حلقوں کے دباؤ میں رہی ہے۔ عمران خان کے دور میں ان کے وزراء کے خلاف نیب کیسز پر کوئی کام نہیں ہوا یہاں تک کہ مالم جبہ کیس میں وزیراعلی کے پی کے پرویز خٹک اور اعظم خان جو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری تھے ان پر کوئی مقدمہ نہیں چلا۔
لیکن سب سے دلچسپ کیس ای او بی آئی کا ہے ،جس میں سابق چیئرمین ای او بی آئی ظفر اقبال گوندل پر قومی خزانے کو تین ارب 70 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے کا الزام تھا ۔ملزمان نے الزام سنتے ہی عدالت سے راہ فرار اختیار کی اور روپوش ہو گئے ۔ لیکن اس میں صرف ظفر گوندل ہی نہیں بے قائد گی کی تھی، بلکہ اس مقدمے میں ظفر اقبال گوندل کے وکلاء نے بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے تھے۔ وکلا کی فیس کا معاملہ وزارت قانون طے کرتی ہے اور فیس کی منظوری بھی وزارت قانون دیتی ہے ۔ظفر اقبال گوندل نے اس ضابطے کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس پر مقدمہ قائم ہوا اور سماعت بھی ہوئی ۔ 2016 سے سو موٹو کیس نمبر 4 اسی سلسلے میں سپریم کورٹ میں سماعت کا منتظر ہے اس کیس میں اس کیس کی پہلی سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کی تھی اور کیس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا اس کی اس کی دوسری سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی نے کی تو انہوں نے کہا کہ ان وکلاء کو بھاری فیس دے کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس کیس میں جن ملزمان کے نام ہیں ،ان میں جسٹس محسن اختر کیانی ،جسٹس اطہر من اللہ اور بابر ستار بھی ملزمان میں شامل تھے۔ اطہر من اللہ نے ایک مرتبہ 85 ہزار دوسری مرتبہ چھ لاکھ 58 ہزار روپے فیس حاصل کی۔ مجموعی طور پر وکلا نے پانچ کروڑ روپے سے زائد کی فیس وصولی جس کی وزارت قانون نے کوئی منظوری نہیں دی تھی۔ جسٹس بابر ستار، احمد شہزاد فاروق اور گوہر علی خان کو جو آج کل پی ٹی آئی کے چیئرمین ہیں انہوں نے بھی بڑی بھاری فیسیں وصولیں ۔یہ سب لوگ اس کیس کے ملزمان میں شامل ہیں۔ ان کے ساتھ اعتزاز احسن نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ ہوئے تھے وہ بھی اس صف میں کھڑے ہوئے ہیں ۔ایک مرتبہ ان کو وزارت قانون نے وکالت کی اجازت دی تھی دوسری مرتبہ انہیں اجازت نہیں دی گئی ۔لیکن وہ عدالت کے کٹہرے میں جا کر کھڑے ہو گئے تھے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ ذرا اس سو موٹو کیس کا جائزہ تو لیں۔ اعتزاز احسن اس ناجائز فیس وصولی کو اپنا حق گردانتے ہیں۔ اس معاملے کا فیصلہ ہونا چاہیے کسی بھی سرکاری ادارے کو ایک لاکھ سے زیادہ فیس دینے پر وکیل کرنے کے لیے وزارت قانون سے اجازت لینا ہوتی ہے ۔ویسے بھی کئی وکیل محکموں کے قانونی مشیر ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عدالتوں میں اپنے محکموں کے خلاف مقدمات کا سامنا کریں تو جج صاحبان جو آج اسلام اباد ہائی کورٹ کے اور سپریم کورٹ کے جج ہیں انہیں چاہیے کہ اس مقدمے کا فیصلہ کرائیں اور اپنے دامن سے یہ داغ دھلوائیں۔