پنجاب میں بڑھتی ہوئی دھند: مسائل اور ممکنہ حل … محمد محسن اقبال


لاہور، جو کبھی باغات کا شہر کہلاتا تھا، اب ہر سردیوں سے قبل دھند کی ایک گھنی تہہ میں ڈھک جاتا ہے، جس کا اثر صحت سے لے کر معیشت تک زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے۔ یہ آلودگی کا بحران فوری اور ٹھوس اقدامات کا تقاضا کرتا ہے، خاص طور پر گاڑیوں کے اخراج کو قابو میں رکھنے کے لیے، جو ہوا کے معیار کو خراب کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ لاہور میں گاڑیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی کو مؤثر طریقے سے حل کرنا نہ صرف عوام کی صحت کے تحفظ کو یقینی بنا سکتا ہے بلکہ معیشت کو بھی مضبوط بنا سکتا ہے۔


پنجاب میں سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد حیران کن ہے۔ 31 مارچ 2024 تک، پنجاب میں 73 لاکھ 53 ہزار 659 گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے تقریباً 62 لاکھ صرف لاہور میں ہیں۔ ان میں 42 لاکھ موٹر سائیکلیں شامل ہیں، جو ایندھن کی نسبتاً کم کھپت کے باوجود پرانی ٹیکنالوجی اور مناسب دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے شہر کی آلودگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ گاڑیوں کی یہ بے تحاشا موجودگی دھند کے بحران کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پارٹیکیولیٹ میٹر، نائٹروجن آکسائیڈز، اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسی آلودہ گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔
دھند کے عوامی صحت پر اثرات تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ پنجاب کے محکمہ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، صرف اکتوبر میں دھند کی وجہ سے پنجاب میں 19 لاکھ سے زائد افراد کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 19 لاکھ 34 ہزار 30 افراد کو سانس کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا، 1 لاکھ 19 ہزار 533 افراد کو دمہ، 13 ہزار 773 کو دل کی بیماریاں، اور 5 ہزار 184 افراد کو فالج جیسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اعداد و شمار دھند کے صحت عامہ پر بحران کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لاہور کے رہائشیوں کے لیے، یہ مسلسل دھند خاص طور پر بچوں، بوڑھوں اور پہلے سے موجود بیماریوں کے شکار افراد کے لیے سانس اور دل کی بیماریوں کو مزید خراب کرتی ہے۔
اس آلودگی کے اقتصادی نقصانات بھی کم نہیں ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ زیادہ لوگ آلودگی سے متعلق بیماریوں کے علاج کے لیے ہسپتال جاتے ہیں، اور کام کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ مزدور زیادہ بیماریوں کی چھٹیاں لیتے ہیں۔ معیشت پر یہ اثرات صحت کی دیکھ بھال سے آگے تک پھیلتے ہیں: دھند میں کام کرنے والی گاڑیاں زیادہ دیکھ بھال کی متقاضی ہوتی ہیں، اور گاڑیاں سست ٹریفک اور آلودگی کے ماحول میں کم کارکردگی کے ساتھ چلتی ہیں، جس سے ایندھن کی کھپت بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان کی معیشت پر ایندھن کی درآمدات کا دباؤ بھی سنگین ہے۔ لاہور کے وسیع گاڑیوں کے بیڑے کو چلانے کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی درآمدات ملک کے تجارتی خسارے پر منفی اثر ڈالتی ہیں اور ایسے وسائل کو ختم کرتی ہیں جو مقامی ترقی پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ ایندھن کی طلب کو کم کرنا اس بوجھ کو کم کرے گا اور فنڈز کو ایسے اقدامات کی طرف موڑنے کی اجازت دے گا جو پائیدار ترقی کو فروغ دیں۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ پہلا قدم ایک سال کے لیے آزمائشی بنیاد پر نئے ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے کی معطلی ہو سکتا ہے۔ یہ اقدام نئی گاڑیوں کی آمد کو کم کرنے، سڑکوں پر دباؤ کو کم کرنے، اور آلودگی کو محدود کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ یہ معطلی نئی خریداریوں کی حوصلہ شکنی کرے گی، جس سے ایندھن کی طلب کم ہو جائے گی اور ہوا کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینا بھی ایک امید افزا حل پیش کرتا ہے۔ یہ گاڑیاں نمایاں طور پر کم اخراج پیدا کرتی ہیں، اور انہیں عوام کے لیے زیادہ قابل رسائی بنانے کے لیے مراعات دی جا سکتی ہیں۔ سبسڈیز، ٹیکس میں چھوٹ، یا رجسٹریشن فیس میں کمی جیسے اقدامات لاہور کے ٹرانسپورٹ کلچر میں تبدیلی لا سکتے ہیں، جو ایندھن پر انحصار کم کرنے اور ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے میں معاون ہوں گے۔
اس کے ساتھ ہی، لاہور کے پبلک ٹرانسپورٹ نظام کو الیکٹرک یا ہائبرڈ آپشنز کے ساتھ بڑھانا آلودگی کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایک قابل اعتماد، توانائی سے موثر پبلک ٹرانسپورٹ نظام نجی گاڑیوں کے استعمال کے متبادل فراہم کرے گا، جس سے فی کس اخراج کم ہوگا۔ یہ نظام شہریوں کے لیے سفری اخراجات بھی کم کرے گا، خاص طور پر ان کے لیے جو نجی گاڑیوں کی دیکھ بھال اور ایندھن کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
مزید برآں، سرکاری ٹرانسپورٹ کے طرز عمل میں تبدیلیاں بھی ایک مؤثر پالیسی ثابت ہو سکتی ہیں۔ اگر تمام سرکاری ملازمین، اعلیٰ حکام سے لے کر ماتحت عملے تک، سرکاری گاڑیاں استعمال کریں اور اس کے اخراجات ان کی تنخواہوں سے منہا کیے جائیں، تو یہ گاڑیوں کے استعمال کو بہتر بنائے گا اور مجموعی ایندھن کی کھپت کو کم کرے گا۔ اس اقدام سے سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم ہو گی، ٹریفک کے دباؤ میں کمی آئے گی، اور اخراجات کم ہوں گے۔
مزید سخت ٹریفک قوانین، جو مشرق وسطیٰ یا یورپ کے ماڈلز پر مبنی ہوں، بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، گاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ مسافروں کے ساتھ چلنے کی پابندی کرنا ٹریفک کو کم کرے گا اور آلودگی میں کمی لائے گا۔
ان اقدامات کا مجموعی اثر دھند کے بحران کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ ہر اقدام ایندھن کی درآمد کی طلب کو کم کرے گا، مالی بچت پیدا کرے گا اور پائیدار ترقیاتی اقدامات کے لیے وسائل مہیا کرے گا۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوششیں لاہور کو ایک صاف، صحت مند اور خوشحال شہر بنانے میں معاون ہوں گی۔