ابراہیم رئیسی کی ہلاکت: نو افراد حادثے میں جاں بحق، صدر کے ایک ہمسفر حادثے کے ایک گھنٹے بعد تک زندہ تھے

تہران (صباح نیوز)ایران کے صدرابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی اتوار کی شام ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاکت کے بعد اب اس حادثے کے بارے میں معلومات سامنے آنا شروع ہو رہی ہیں۔ایرانی کرائسس مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ محمد نامی کے مطابق ہیلی کاپٹر کی تباہی کے ایک گھنٹے بعد تک اس پر سوار کم از کم ایک مسافر زندہ تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹر پر سوار تبریز کے پیش امام محمد علی الہاشم نے حادثے کے بعد ایرانی صدر کے دفتر سے رابطے کی بھی کوشش کی تھی۔محمد نامی کے مطابق اس حادثے میں کل نو افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں عملے کے ارکان بھی شامل ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہلاک شدگان کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت نہیں پڑی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل یہ کہا گیا تھا کہ حادثے میں کچھ لاشیں جل گئی تھیں۔۔ایران میں ٹی وی پر صدر رئیسی کے تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کے ملبے کے مناظر نشر کیے گئے ہیں۔ رپورٹر کے مطابق یہ حادثہ دھند اور بارش کی وجہ سے پیش آیا۔ایرانی صدر کی ہیلی کاٹپر حادثے میں ہلاکت کے بعد سامنے آنے والی تفصیلات میں ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق صدر اور وزیر خارجہ کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر بیل 212 تھا۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر کتنا استعمال شدہ تھا، لیکن اس کے بارے میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ 1960 کا ماڈل تھا جسے کینیڈین فوج کے لئے تیار کیا گیا تھا۔یہ ہیلی کاپٹر امریکی کمپنی بیل ہیلی کاپٹر نے بنائے تھے اور امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تھائی لینڈ کی قومی پولیس سمیت سرکاری آپریٹرز کی جانب سے بڑے پیمانے پر اس کا استعمال کیا جاتا تھا۔

فلائٹ گلوبل کی 2024 کی ورلڈ ایئر فورس ڈائریکٹری کے مطابق، ایرانی بحریہ اور فضائیہ کے پاس مجموعی طور پر اس ماڈل کے 10 ہیلی کاپٹر ہیں، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ایرانی حکومت زیرِِ استعمال کتنے ہیں۔بیل 212 کو ہر طرح کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، بشمول لوگوں اور سامان کو لانے اور لے جانے اور جنگی حالات میں انھیں ہتھیاروں سے لیس بھی کیا جا سکتا ہے۔فلائٹ سیفٹی فاونڈیشن کے مطابق بیل 212 ہیلی کاپٹر کے اس حالیہ حادثے سے قبل گزشتہ سال ستمبر میں ایک اور اسی ماڈل کے ہیلی کاپٹر کو اس وقت حادثہ پیش آیا تھا کہ جب وہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کے ساحل پر گر کر تباہ ہو گیا تھا۔اس سے قبل اپریل 2018 میں بیل 212 ماڈل کا ایک ہیلی کاپٹر ایران میں اس وقت حادثے کا شکار ہوا تھا جب وہ دل کا دورہ پڑنے والے ایک مریض کو ہسپتال منتقل کرنے کی کوشش میں تھا۔

واضح رہے کہ ایرانی سرکاری میڈیا نے ہیلی کاپٹر حادثے کی وجہ خراب موسم کو قرار دیا ہے۔اور اسرائیلی حکام مقامی ذرائع ابلاغ کو بریفنگ دے رہے ہیں کہ ایرانی صدر کی ہلاکت میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ادھر ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ابراہیم رئیسی کی نماز جنازہ 21 مئی کو تبریز میں ہوگی۔ایرانی میڈیا نے ایسا کوئی تاثر نہیں دیا کہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں کوئی سازش ہوئی ہے۔ایران میں صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے میں  جاں بحق ہونے والے مزید تین افراد کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا ہے۔یہ تینوں افراد ہیلی کاپٹر کے عملے کا حصہ تھے۔ ان میں پائلٹ کرنل سید طاہر مصطفوی، پائلٹ کرنل محسن دریانوش اور میجر بہروز شامل ہیں،

ایرانی ہلال احمر کے سربراہ پیر حسین لیوند نے کہا ہے کہ حادثے کے شکار ہیلی کاپٹر کی کھوج کے لیے شروع کیا گیا سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق انھوں نے کہا کہ ہم شہدا کی میتیں تبریز منتقل کرنے کے مرحلے میں ہیں۔پیر حسین لیوند نے کہا ہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے میں  جاںبحق ہونے والے تمام مسافروں کی میتیں ایمبولینس کے ذریعے ایران کے شمال مغربی شہر تبریز کے ایک قبرستان لے جائی جا رہی ہیں۔ادھر ایرانی کابینہ نے ابراہیم رئیسی کی ہلاکت پر تعزیتی پیغام جاری کیا ہے جس کے مطابق رئیسی نے اپنی زندگی ایرانی عوام کی خدمت میں گزاری۔

ابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے جہاں شیعہ مسلمانوں کے مقدس ترین مزارات میں سے ایک واقع ہے۔ ان کے والد ایک عالم تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم فقط پانچ برس کے تھے۔شیعہ روایت کے مطابق ان کا سیاہ عمامہ ان کے پیغمبر اسلام کی آل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ انھوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا۔2021 میں ایرانی صدر بننے سے قبل وہ 25 سال کی عمر میں تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر تعینات ہوئے۔اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے ان چار ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو 1988 میں قائم ان خفیہ ٹربیونلز کا حصہ تھے جو کہ ڈیتھ کمیٹی کے نام سے مشہور ہوئے۔

ایران کے آئین میں اس حوالے سے واضح ہدایات ہیں کہ جب ملک کا صدر بیماری، موت یا مواخذے کے نتیجے میں مزید کام نہ کر سکے۔ایسے میں نائب صدر، جو فی الحال محمد مخبر ہیں، ملک چلاتے ہیں۔ وہ پارلیمان اور عدلیہ کے سربراہان کے ساتھ مل کر زیادہ سے زیادہ 50 روز میں نئے صدر کا الیکشن کرواتے ہیں۔مگر یہ صرف رہبر اعلی کی تصدیق کے ساتھ ممکن ہے جو کہ ایران میں تمام معاملات پر حتمی فیصلہ دیتے ہیں۔ایرانی سرکاری میڈیا نے ابراہیم رئیسی کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔ اب ایران میں صدارتی انتخاب ہوگا جس کے حوالے سے عوام میں بظاہر گذشتہ الیکشن کے مقابلے زیادہ دلچسپی ہوگی۔

گذشتہ الیکشن میں رئیسی کے مدمقابل تمام اہم امیدواران کو نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ محض 30 فیصد اہل ووٹروں نے الیکشن میں حصہ لیا تھا جبکہ اکثریت نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کو نظام کے سب سے قابل اعتماد لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایران کی طرف سے امریکہ اور عراق کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھے۔ انھی مذاکرات کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری امور پر بات چیت ہوئی تھی۔وہ پہلے ایرانی اہلکار تھے جو حسن روحانی کے دور میں تہران میں برطانوی سفارتخانے کے افتتاح کے بعد لندن گئے تھے اور برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ سے ملاقات کی تھی۔

وہ وزارت خارجہ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں اور خطے میں ایران کے مزاحمتی فرنٹ اور اثر و رسوخ پر بات کرتے تھے۔ان کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی سے قریبی تعلقات تھے جو مشرق وسطی میں ایران کے پراکسی گروہ چلاتے تھے۔انھوں نے تہران یونیورسٹی سے بین الاقوامی امور سے متعلق ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ وہ بحرین میں ایران کے سفیر رہ چکے ہیں مگر حسن روحانی کی حکومت نے انھیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔حالیہ دور میں غزہ جنگ کے دوران ایرانی وزیر خارجہ نے مختلف ممالک کے دورے کیے تھے۔