سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ تین دھائیوں کے دوران بھارتی فورسز کی حراست میں 8ہزارکشمیری لاپتہ ہوگئے ہیں اکثر لاپتہ افراد کی مائیں آج بھی اپنے بیٹوں کی واپسی کی منتظر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک کئی کشمیری مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کے انتظار میں زندگی کی بازی ہارچکی ہیں۔ حسینہ بیگم کے بیٹے سید انور شاہ کوجو پیشے سے ایک پینٹر تھا،بھارتی فوجیوں نے 21جولائی 2000کو سرینگر میں گرفتارکرکے لاپتہ کردیاتھا۔جموں و کشمیر کے دور درازعلاقے کرہامہ سے تعلق رکھنے والی مہتابہ بیگم اپنے بیٹے کو تلاش کرتے کرتے اس دارفانی سے چل بسیں۔پیشے سے ایک مزدوران کے بیٹے محمد یعقوب خان کو بھارتی فوجیوں نے1990میں گرفتارکرکے لاپتہ کیاتھا۔
اسی طرح بمنہ سرینگر کی بوٹ مین کالونی کی مصرہ بیگم اپنے اکلوتے بیٹے شبیر حسین گاسی کو دیکھنے کی حسرت لئے دنیا سے کوچ کرگئی ۔شبیر حسین کو بھارتی فوج نے 21جنوری 2000کو گرفتار کیا تھا۔ حمیدہ پروین 2012 تک اس آس میں زندہ رہیں کہ ایک دن ان کا بیٹا جو طالب علم تھا ،گھر واپس لوٹے گا لیکن وہ نہیں آیا۔ زونہ بیگم راج باغ سرینگر سے تعلق رکھتی تھیں۔ان کا بیٹا مئی 1996میں لاپتہ ہو گیا جب بھارتی فورسز نے ان کو گھر پر چھاپے کے دوران گرفتارکیا۔ ان کا بیٹا امتیاز احمد ایک فارسٹ آفیسر تھا۔ زونہ2011میں اپنے بیٹے کا انتظار کرتے کرتے انتقال کر گئیں۔
بٹہ مالو سرینگر سے تعلق رکھنے والی حلیمہ بیگم فروری 2020میں انتقال کرگئیں۔وہ اپنے بیٹے بشارت احمد شاہ کو تین دہائیوں تک تلاش کرتی رہیں۔ بشارت بھارت کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اوران کو بھارتی پیراملٹری سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں نے 7جنوری 1990کو سوپور سے گرفتار کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر عالمی اداروں کو مقبوضہ علاقے میں کشمیری مائوں کو درپیش مشکلات کا نوٹس لینا چاہیے۔