واقعہ اور حکایت میں رشتہ اتنا ہی قدیم، پراسرار اور بامعنی چلا آ رہا ہے جتنا صاحب اقتدار کے مفاد اور اہل شہر پر گزرنے والے افتاد میں تعلق رہا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ مہاتما بدھ نے بھوساگر میں تیرتی مچھلیوں اور جنگل پر اترے پت جھڑ میں گرے پیلے پتوں سے ہاتھ آنے والے حکیمانہ نکات کو جاتکوں کا نام دیا۔ یسوع علیہ السلام نے اپنے پیام کو کتھا کے روپ میں بیان کیا۔ خدائے لم یزل نے قرآن پاک کی سورہ البلد میں لا اقسم بھذا البلد کہہ کر شہر مقدس کی قسم کھائی۔ اور پھر سور الانعام میں جھوٹ بولنے والوں کے انکار اور جھوٹی قسم اٹھانے والوں کا کس نفیس زاویے سے ابلاغ فرمایا کہ آج تک جھوٹ بولنے والوں پر حرف بہ حرف پورا اترتا ہے۔ کلام مقدس کے کچھ پاک اقتباس دیکھئے اور جو لوگ اپنی جانوں کو نقصان میں ڈال چکے ہیں…سوائے اس کے ان کا اورکوئی بہانہ نہ ہوگا کہ ہم تو مشرک نہیں تھے… اور جو باتیں وہ بنایا کرتے تھے وہ سب غائب ہو گئیں…کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہی ہیں۔ یاد رہے کہ سور الانعام مکی زمانے کے آخری دنوں کی وحی ہے اور اس کا نزول حضرت اسما بنت یزید سے روایت کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں اسلام لانے والوں پر اہل مکہ کے ظلم و ستم آخری حد کو پہنچ گئے تھے۔ بہت سے اہل ایمان حبشہ کو ہجرت کر گئے تھے اور باقی خطہ یثرب کے لیے ہجرت پر تیار بیٹھے تھے۔ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ درویش اپنی تحریر میں مذہبی حوالوں سے استنباط نہیں کیا کرتا۔ مگر آج کچھ ایسا ہی معاملہ آن پڑا ہے کہ کالم کا عنوان ہی تیرہویں صدی کے شاعر بے بدل اور امام الصوفیا جلال الدین رومی علیہ الرحمتہ کی مثنوی معنوی کے مطلع سے اخذ کرنا پڑا۔ بشنو از نے چون حکایت می کند۔ ہاتھ بھر کی نرسل سے برآمد ہونے والی پرسوز آواز صدیوں سے ہماری برہا کا دکھ بیان کر رہی ہے۔ فرمایا۔ سنو کہ میری بانسری کیا کہتی ہے؟ بنارس کے بسم اللہ خان فرمایا کرتے تھے کہ سر میں جھوٹ کپٹ کو دخل نہیں۔ استاد بسم اللہ خان کی راگنی میں صفائے قلب کی یہ کیفیت تھی تو جلال الدین رومی کے کلام میں کیا تاثیر ہو گی۔ ہوا یہ کہ ہمارے ایک ساتھی نے ایک حکایت کی صورت میں وطن عزیز کے حالیہ حالات بیان کرنا چاہے تھے۔ حکایت سچی تھی لیکن صاحبان اختیار پر گراں گزری۔ آفاق پر سحر کا دام بچھانے والوں کے ایک اشارے پر قرطاس سے حکایت ہٹا لی گئی۔ حکایت کی خوبی یہ ہے کہ اہل شہر کے کانوں میں سیسہ بھی انڈیل دیا جائے تو واقعے کی رسائی نہیں رکتی۔ اب ایک نئی تمثیل چھیڑی گئی ہے۔ ایک ریٹائرڈ صاحب عساکر نعیم لودھی صاحب دربار کے کچھ محرمان راز کے ساتھ مل کر اسی کہانی کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جو پندرہ برس پہلے اہل جمہور کے خلاف سازش سے شروع ہوئی تھی۔ اس ملک کی تاریخ جاننے والوں کو 12جنوری 2012 کی واردات یاد ہے۔ اسی میمو گیٹ کا قصہ تھا جسے بعد ازاں عدالت عظمی نے کاغذ کا بے معنی پرزہ قرار دے کر کھڑکی سے باہر اچھال دیا تھا۔ نعیم لودھی ان دنوں سیکرٹری دفاع تھے۔ میمو گیٹ میں الزام تھا کہ منتخب حکومت نے سفیر پاکستان کے ذریعے امریکی حکومت سے ممکنہ عسکری بغاوت کے خلاف مدد مانگی ہے۔ یہ قصہ فنانشل ٹائمز میں منصور اعجاز نامی ایک مشتبہ شخص کے مضمون سے شروع ہوا تھا۔ اب اس محب وطن کا کوئی نام نہیں لیتا۔ یہ البتہ واضح ہے کہ اس سازش کے دو مقاصد تھے۔ منتخب حکومت کو کمزور کرنا نیز 30 اکتوبر 2011 کے جلسے میں عمران خان کے سیاسی تعارف کو وزن بخشنا۔ عدالت نے اس ضمن میں فوج کے سربراہ اور مقتدر خفیہ ادارے کے سربراہان سے بیانات طلب کیے۔ نعیم لودھی صاحب نے طریقہ کار سے روگردانی کرتے ہوئے وزارت دفاع سے منظوری لیے بغیر یہ بیانات براہ راست عدالت کے سپرد کر دیے جہاں افتخار محمد چوہدری عدل گستری پر مامور تھے۔ اس پر بہت ہاہو مچی۔ منتخب وزیراعظم کو کھلے عام دھمکیاں دی گئیں۔ دوسری طرف حکومت نے نعیم لودھی کو برطرف کر دیا۔ یہ قصہ 19 جون 2012 کو یوسف رضا گیلانی کی معزولی پر ختم ہوا۔ بارہ برس بعد نعیم لودھی ایک بار پھر کچھار سے برآمد ہوئے ہیں۔ حقیقی مقصد آئین اور جمہور کی بالادستی نہیں بلکہ پراجیکٹ عمران کو ازسرنو زندہ کرنا ہے۔ نعیم لودھی اور ان کے جتھے کو خبر ہو کہ 9 مئی کچھ واقعات کا نام نہیں، اس ملک میں بندوست اقتدار کی بنیادی ترتیب پر شب خون کا معاملہ ہے۔ نعیم لودھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
21 اپریل کو روئیداد خان انتقال کر گئے۔ قبلہ مرحوم کا شمار غلام محمد، چوہدری محمد علی، عزیز احمد، قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر اور مسعود محمود کی طرح ہماری بیوروکریسی کے پیران فرتوت میں ہوتا تھا۔ ہمارے ایک محترم ساتھی نے قبلہ کا تعزیت نامہ لکھا ہے لیکن غلام اسحاق خان کے خفیہ الیکشن سیل کا ذکر کر کے خاموش ہو گئے۔ یہ نہیں بتایا کہ 4 جنوری 1965 کو آمر وقت کے صاحبزادے گوہر ایوب نے اہل کراچی پر گولی چلائی تو روئیداد خان کراچی کے کمشنر تھے اور انہوں نے دفعہ 144 کی آڑ میں اس قتل عام کی اعانت کی تھی۔ 23 مارچ 1971 کو یحیی خان نے آپریشن سرچ لائٹ کی منظوری دی تو روئیداد خان بطور سیکرٹری اطلاعات ان کے ہمراہ تھے۔ تمام غیرملکی اخباری نمائندوں کو ڈھاکہ بدر کرنے والے روئیداد خان انناس کھانے تو ڈھاکہ نہیں گئے تھے۔ روئیداد خان ستمبر 1978 سے اگست 1988 تک ضیاالحق کے سیکرٹری داخلہ رہے۔ ضیا آمریت میں جمہوری کارکنوں پر ٹوٹنے والی قیامت پر روئیداد خان کا قلم چلتا تھا۔ روئیداد خان کی خودنوشت کا عنوان ہے پاکستان کا خواب جھوٹا پڑ گیا۔ اس خواب کے دھندلانے میں روئیداد خان نے اہم کردار ادا کیا۔ بے شک حکایت واقعے کی سچائی پر گواہ ہے۔ آج کوئی خدائے لم یزل کے سامنے قسمیں اٹھا کر اپنی بے خبری کا دعوی کر رہا ہو گا ٹھیک اسی طرح جیسے روئے زمین پر کچھ لوگ کوٹ کی جیب میں رکھے کلام مجید پر قسمیں اٹھاتے ہیں کہ انہوں نے اہل پاکستان سے ناانصافی نہیں کی۔ سچ مگر یہ ہے کہ جلال الدین رومی کی بانسری کچھ اور ہی کہتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ