میرے ایک مہربان عزیز نے اس خواھش کا اظہار کیا کہ میں بھی حالیہ صدارتی آرڈیننس پر خامہ فرسائی کروں اگرچہ اس موضوع پر پہلے ھی فرمائشی و اختلافی کالموں کا سلسلہ جاری ھے
میرے بارے عمومی طور پر باور کیا جاتا ھے کہ میں طبعاً نرم خو اور صلع جو مزاج رکھتا ھوں حالانکہ جب “آتش” جواں تھا تو آزادی رائے اور عوامی مطالبات کی تحریکوں کا محرک اور مبلغ رھا لیکن کبھی تصور بھی نہیں کیا کہ اس پار اور اس پار کو ایک پلڑے میں رکھیں غاصب اور ھمدرد یکساں کیسے ھو سکتے ھیں؟ پاکستان ھمارے اکابر کی جدوجہد کا ثمر اور آرزوؤں کا مرکز ھے۔سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر حکمرانوں کی پسند و ناپسند ایک الگ بات ھے لیکن ریاست پاکستان اور عوام جدوجہد کشمیر کے ایک ھی ورق کے دو صفحوں کی طرح ھیں۔ میں سمجھتا ھوں کمی کمزوری گلے شکوے اپنی جگہ یہ پاکستان ھی ھے جو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی وکالت کر رھا ھے ورنہ اقوام عالم میں اور کون ھے جو کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بات کرتا ھے۔ تجربات زیست، مطالعہ و سیاسی نشیب و فراز کے باعث اب طبعیت پر منیر نیازی مرحوم کی یہ غزل غالب لگتی ھے۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔
ہر کام کرنے میں۔۔۔۔۔
سو تعمیل فرمائش ھو یا معزرت کرنا ھو دونوں میں ھی دیر کردیتا ھوں۔
صدارتی آرڈیننس پر اظہار خیال سے قبل یہ جاننا ضروری ھے کہ پونچھ کی سر زمین ھی ھمیشہ مزاحمتی و احتجاجی تحریکوں اور جذباتی سرگرمیوں کا مرکز کیوں رھتی ھے۔
باغیانہ تحریکیں اکثر سماجی، اقتصادی، اور سیاسی عدم مساوات، ناانصافی، اور ظلم کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ یہ تحریکیں اکثر حکومت کی پالیسیوں، انتظامیہ کی ناانصافیوں، یا سماجی اور اقتصادی مسائل کے خلاف رد عمل کے طور پر ابھرتی ہیں۔
کچھ اہم وجوہات جن کی وجہ سے مزاحمتی و احتجاجی تحریکیں جنم لیتی ہیں ان میں
سماجی اور اقتصادی عدم مساوات سر فہرست ھیں جب سماجی اور اقتصادی عدم مساوات بڑھ جاتی ہے، تو لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے تحریکیں شروع کرتے ہیں۔
سیاسی ناانصافی جب حکومت کی پالیسیاں یا انتظامیہ کی کارروائیاں ناانصاف یا ظالمانہ ہوتی ہیں، تو لوگ بغاوت پر اتر آتے ہیں۔
جب کسی قوم یا نسلی گروہ کو دوسروں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے یا ان کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے، تو وہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے کے لیے تحریکیں شروع کرتے ہیں۔
مذہبی یا نظریاتی اختلافات جب مذہبی یا نظریاتی اختلافات بڑھ جاتے ہیں، تو لوگ اپنے مذہب یا نظریے کے لیے لڑنے کے لیے تحریکیں شروع کرتے ہیں۔
یہ کچھ اہم وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مزاحمتی اور احتجاجی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ ہر تحریک کی اپنی مخصوص وجوہات اور مقاصد ہوتے ہیں۔
پونچھ کی معلوم تاریخ میں تحریکوں کی ایک طویل فہرست ھے اور اس میں کہنے والے کہتے ھیں کہ اس میں خمیر و مٹی کا بھی کافی عمل دخل ھے کہتے ھیں ایک بار اس علاقے سے تعلق رکھنے والوں کو دربار میں بلایا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ آپکو حکومت سے کیا شکایات ھیں تو انہوں نے حکومتی سہولیات کا بطریق احسن و تشکر ذکر شروع کردیا پھر اس علاقے سے لائی گئی مٹی پر کھڑا کر کے پوچھا تو حکومت اور حکمرانوں پر طعن و تشنیع شروع کردی تو نتیجہ اخذ کیا کہ یہ مٹی کا اثر ھے۔ اس طرح اس صورت حال کا احاطہ ایک کالم میں ممکن نہیں لیکن اگر ھم اسکا اجمالی جائزہ لیں تو 1832 کی تحریک ھے جس میں ھزاروں لوگوں کی سرکشی کا ذکر ملتا ھے کھالیں اتروانے والے اور سروں کے مینار ان ھی جان فروشوں نے بنوانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس تحریک کو بہ زور طاقت دبایا گیا لیکن اسکے مابعد اثرات تادیر قائم رھے۔ 1880 سے 1905 تک پونچھ میں حقوق ملکیت کی تحریک رھی یہ اگرچہ متشدد اور باغیانہ تو نہیں تھی زمینوں کے مالکانہ حقوق کے حصول کی ایک عدالتی جدوجہد تھی جو سردار بہادر علی خان مرحوم اور انکے رفقاء جن میں سے زیادہ کا تعلق ٹائیں سے تھا اور وہ انکے پشتیبان اور مالی و جانی مددگار بھی تھے یہ تحریک کامیاب ھوئی اور عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں لوگوں کو انکی زمینوں کے حقوق ملے جسکا فائدہ صرف پونچھ میں نہیں ھوا بلکہ آزاد کشمیر کے جملہ اضلاع جو اسوقت پونچھ کا حصہ تھے یا اسکے متصل تھے سب کو ملا۔
کشمیر میں جب 1931/32 میں تحریک چل رھی تھی اسوقت بھی پونچھ میں بے چینی و اضطراب پایا جاتا تھا لیکن اس دور میں پونچھ پر خان صاحب مرحوم و مغفور کا بڑا اثر تھا اور انکی وجہ سے یہاں کے لوگوں کا رحجان تعلیم اور نوکریوں کے حصول پر تھا حالانکہ اسوقت بھی یہاں کے ڈوگرہ حکمران کے خلاف نفرت پائی جاتی تھی اسی دوران دوسری جنگ عظیم شروع ھو گئی جو 1939 سے1945 تک رھی اس جنگ میں بھی اس علاقے کے مکینوں نے بڑی بہادری سے کارھائے نمایاں انجام دئیے اور تاریخ رقم کی۔ اس کے بعد باقاعدہ یہاں تحریک آزادی منظم ھونا شروع ھو گئی جو موجودہ خطہ کی آزادی کی نوید لیکر طلوع ھوئی۔ اس تحریک میں بھی یہاں کا باسیوں نے سرخیل کا کردار ادا کیا ابھی یہ خطہ آزاد ھوا ھی تھا کہ دو تین سال کے اندر کچھ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ھوئی تو یہاں اسکے خلاف ردعمل کے نتیجے میں ایک تحریک چلی جس نے بھی ایک باغیانہ شکل اختیار کر لی پھر یہاں جمہوریت اور اسمبلی کے قیام کی تحریک چلتی رھی جو بالاخر 1970 میں آزادانہ صدارتی انتخابات اور منتخب اسمبلی کی صورت میں کامیابی سے ھم کنار ھوئی اسی دوران پاکستان دو لخت ھو گیا اور ذولفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت قائم ھوئی جنہوں نے 1973 میں ایک وفاقی نوعیت کا پارلیمانی نظام دیا جسکے نتیجے میں آزاد کشمیر میں بھی پارلیمانی نظام حکومت قائم ھوا اور خان عبدالحمید خان مرحوم وزیراعظم بنائے گئے پورے آزاد کشمیر میں اس کے خلاف بھی ایک اندرونی رد عمل تھا پونچھ میں کچھ زیادہ ھی تھا لیکن بھٹو مرحوم کا سحر اور شخصیت کا جادو تھا جس باعث ردعمل دبا ھی رھا تاوقتیکہ پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا اور یہاں بھی پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹ دی گئی اور یہاں بھی نامزد صدور کا ایک بار پھر سلسلہ شروع ھو گیا جنرل رحمان،برگیڈئیر حیات پھر جنرل رحمان تاوقتیکہ 1985 میں جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آ گیا۔ 1987 میں بلدیاتی انتخابات ھوئے پلندری میں ایک تحریک چلی جس نے پورے علاقے کو پھر سے گھیرے میں لے لیا اس وقت سردار سکندر حیات و سردار عبد القیوم خان حکمران تھے جو زیرک سمجھدار اور لوگوں کے مزاج آشنا تھے انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور خطہ میں مساویانہ ترقیاتی عمل سے حالات پر قابو پالیا۔مقبول بٹ کی شہادت کے بعد اور مقبوضہ کشمیر میں 1989 کی تحریک اور سیزفائر لائین توڑنے کے واقعات بھی تسلسل سے ھونے لگے اس کو روکنے کے نتیجے میں پیداشدہ صورت حال بھی کشیدگی اور مہمیز کا کام دیتی رھی الہذاالقیاس گزشتہ طویل عرصے سے کسی نہ کسی صورت میں یہ تحریکیں مسلسل زور پکڑتی رھی ھیں اور انکو تقویت موجودہ وزیراعظم کے غیر منطقی انتخاب انکی دانشوری، تقاریر اور رویوں سے ملی۔ خطہ میں بجلی کے بلوں میں ناروا اضافہ اور طویل عرصہ سے دی جانے والی آٹے میں سبسڈی جیسے مسائل نے ان تحریکوں میں ایک نئی جان ڈالی۔
جہاں تک صدارتی آرڈیننس کا تعلق ھے آزاد کشمیر میں کوئی بھی معروف و معتبر سیاسی جماعت اس حق میں نہیں ھے کہ ملک میں لا قانونیت، پہیہ جام،شٹر ڈاؤن، لاک ڈاؤن،پر تشدد اور شر پسندانہ اقدامات، بلوہ و فسادات، قیمتی جانوں کا ضیاع، پاکستان مخالف جذبات اور قومی جائیدادوں و املاک کے نقصانات میں اضافہ ھو اسکی تحدید اور بر وقت کنٹرول وقت کی اھم ضرورت ھے ان اقدامات سے عام آدمی متاثر ھوتا ھے آزاد کشمیر کا خطہ ایسی صورت حال کا متحمل نہیں ھوسکتا لیکن جس عجلت،بلا مشاورت اور بے وقت اس آرڈیننس کا اجرا کیا گیا ایسے حالات میں کیا کردار ادا کیا جاسکتا ھے اگرچہ اس صورت حال کے پیش نظر وفاقی حکومت نے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی ھے جو اس صورت حال کا جائزہ لےگی لیکن یہ کمیٹی اسوقت تک کوئی موثر اور قابل عمل حل نہیں تلاش سکتی جب تک وہ اسکا جائزہ تمام سٹیک ھولڈرز کو اعتماد و تعاون میں لیکر نہ لے۔
یہ آگ حکومت بالخصوص وزیراعظم نے خود اپنے رویوں سے بھڑکائی ھے جب تک معاشرے میں انصاف و توازن اور فطری میلانات و تال میل کو فروغ نہیں دیا جاتا کوئی اچھا اور ناگزیر قانون بھی مثبت و موثر اثرات مرتب نہیں کر سکتا۔
عام آدمی ان روز روز کے مظاھروں، ھڑتالوں، دھرنوں، پہیہ جام، شٹر ڈاؤن سے تنگ ھے یہ پہیہ جام نہیں ترقی جام یہ شٹر ڈاؤن نہیں کاروبار ڈاؤن ھے مہنگائی کا جو عالم چل رھا ھے اس میں اگر سب کچھ ڈاؤن ھوگا تو نظام زیست کیسے چلے گا لیکن یہ محض ڈنڈے آرڈیننس اور بجلی کے بٹن کی طرح بٹن اوپر نیچے کرنے سے ممکن نہیں ھوگا اس کے لئے جس سنجیدگی،سیاسی بصیرت اور فہم وفراست کی ضرورت ھے سر دست عنقا نظر آتی ھے۔قانون اکثریت کو قابو کرنے کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ اکثریت کے تحفظ اور جانی مالی مفادات کو مد نظر رکھ کر اقلیت کے شر پسندانہ اقدامات سے حفاظت کے لئے تشکیل دئیے جاتے ھیں لیکن جب آپ عام شہری کے حق آزادی رائے،حق احتجاج اور حق اجتماع کو سیاسی جماعت اور غیر سیاسی جماعت میں تقسیم کریں گے آئین میں یہ تخصیص تو کہیں نہیں ھے اور اس کے فیصلے کا اختیار ڈپٹی کمشنر کو بالوضاحت دیں گے تو اس پر لوگوں کو موقع تو ملے گا کہ وہ احتجاج کریں۔ اس قانون کو بہتر طور پر بنانے کے بجائے عجلت میں آگ پر تیل چھڑکا گیا اگر حکمرانوں کی صلاحیت یہ ھے تو ان کا اللہ ھی حافظ ھے۔اس قانون کو بہتر کیا جاسکتا تھا اور اسکی ضرورت بھی محسوس ھو رھی تھی کہ حالات کی بہتری اور اصلاح احوال اور خطے کی ترقی خوشحالی سیاحتی ترقی و سہولیات میں اضافے اور لوگوں کے آزادانہ میل جول اور معمولات زندگی میں کچھ حدود و قیود کا بہتر طور پر تعین کیا جائے اب بھی اسکی ضرورت ھے اور آرڈیننسوں کے بجائے جملہ سٹیک ھولڈرز کو اعتماد میں لیکر قانون سازی کی طرف رجوع کیا جائے۔سیاسی جماعتوں کو غیر موثر اور Irrelevent بنانے کی قیمت ادا ھو رھی ھے جب تک گورننس اور سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام کو موثر اور معتبر بنانے کی جانب پیش رفت نہیں ھوتی حالات سدھرتے نظر نہیں آتے۔ حکومت اور اداروں کو آرڈیننس پر مصر اور بضد رھنے کے بجائے قابل اعتراض شقوں سے رجوع کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور جس حد تک اسکی ناگزیر ضرورت ھے تو اسے اسمبلی میں پیش کرکے قانونی سازی کرے۔
Load/Hide Comments