پانی کسی بھی ملک، علاقے، وطن اور براعظم کی زندگی کا ایک اہم عنصر ہے۔ پانی کے بغیر زمین پر جاندار، درخت، پودے، پرندے اور نباتات کا وجود ممکن نہیں۔ نہ ہی کوئی ملک یا قوم پانی کے بغیر ترقی کر سکتی ہے، بلکہ پانی کی کمی سے زمین پر قحط، بھوک، بدحالی اور بیروزگاری بڑھ جاتی ہے۔ براعظم افریقہ کے حالات ہمارے سامنے ہیں، جہاں پانی کی شدید کمی کے باعث آج بھی کئی ممالک میں لوگ آٹے، روٹی سمیت زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم اور پتھر کے دور جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وادی سندھ ایک وقت میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور جدید خطہ تھا، جس کا ثبوت موئن جو ڈڑو کی تہذیب کے کھنڈر ہیں ۔ سندھ جو کروڑوں انسانوں کا پیٹ پالنے اور خوراک کا انتظام کرنے والا صوبہ ہے اس کی خوشحالی کی بنیادی وجہ یہاں کا زراعتی نظام اور دریائے سندھ کا پانی ہے۔ دریائے سندھ جو صدیوں سے نہ صرف سندھ، بلکہ گلگت بلتستان سے لے کر پنجاب کے کروڑوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ رہا ہے آج پانی کی شدید کمی کے باعث سوکھ رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی بڑی تہذیبیں دریا ئوں کے کنارے آباد ہوئیں اور ترقی کی منزلیں طے کیں۔ سندھو دریا بھی اسی طرح سندھ کی تہذیب کی شناخت ہے۔اس وقت (گرین پاکستان اینی شیٹو) کی آڑ میں سندھو دریا کے پانی پر ڈیم بنانے کی کوششیں اور کینالوں کی کھدائی کے ذریعے ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔”گرین پاکستان” منصوبے کے تحت قیمتی زمینوں پر قبضہ، کارونجھر کی کٹائی اور سندھو دریا کے پانی پر نئے کینال بنانے جیسے مسائل سندھ کے سلگتے ہوئے مسائل میں شامل ہیں۔ حکمران طبقات نے 1947 سے لے کر آج تک مختلف طریقوں سے سندھ کا استحصال جاری رکھا ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سندھ میں اقتدار میں رہنے والی جماعت بھی اس استحصال کا حصہ بنی رہی ہے۔
دریائے سندھ کے ڈیلٹا کا علاقہ تقریبا41440 چورس کلو میٹر یعنی16،000چورس میل ہے یہ ایک ساحلی علاقہ ہے جو 210 میٹر یعنی130 میل بنتا ہے جہاں پر ایک منفرد ماحولیاتی نظام قائم ہے جس میں مینگروز کے جنگلات اور مچھلی سمیت آبی اور چرند پرند کی مخلوق موجود ہے۔ کوٹری بیراج سے نیچے جانے والے پانی کی وجہ سے یہ تمام مخلوق اور یہاں کے لوگوں کی زندگی کا دارومدار ہے لیکن اب پانی کی کمی کی وجہ سے ہر سال سمندر اوپر آرہا ہے اور یہاں کی لاکھوں ایکڑ زمین سیم اور تھور کی وجہ سے زیرآب آرہی ہے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں جبکہ مچھلی ،آبی حیات اور تمرکے جنگلات بھی ختم ہورہی ہے ۔1991پانی کے معاہدے میں یہ شق موجود ہے کہ کوٹری بیراج سے نیچے 10ملین ایکڑ فوٹ پانی چھوڑنا لازمی ہے تاکہ سمندر کا پانی اوپر نہ آسکے اور انڈس ڈیلٹا کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھا جاسکے۔لیکن اس وقت کوٹری بیراج سے نیچے مطلوبہ پانی نہیں چھوڑاجارہا جس کے نتیجے میں سمندر زمینوں کو نگل رہا ہے۔اس سارے منظر نامے میں دریائے سندھ سے مزید چھ نئے کینال نکالنا ایک بہت بڑی سازش ہے۔
ارسا ایکٹ میں غیر آئینی ترمیم کے ذریعے ارسا کو وزیرِ اعظم کے ماتحت کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت صوبہ پنجاب کے 60 لاکھ ایکڑ رقبے کو آباد کرنے کے لیے سندھو دریا سے 6 نئے کینال نکالنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ سندھو دریا پر مزید نئے ڈیم اور نہروں کی تعمیر سے نہ صرف سندھ کی معیشت کو نقصان پہنچے گا، بلکہ سندھ کی تہذیب اور اس کے ساتھ ساتھ انڈس ڈیلٹا، جو دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ڈیلٹا ہے کا وجود ختم ہونے کے بھی امکانات ہیں۔ ڈیموں اور نہروں کی کھدائی کے باعث سندھو دریا کا پانی سمندر میں نہیں پہنچ رہا، اور سندھ کی زمینوں میں نمکین پانی بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ٹھٹہ اور بدین اضلاع کی لاکھوں ایکڑ زمین سیم اور تھور کاشکار ہوکر زراعت کے قابل نہیں رہی۔ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق، اس صدی کے آخر تک سمندر کی سطح میں 60 سینٹی میٹر کا اضافہ ہوگا اور اس سے کراچی کے جنوبی حصے، کیٹی بندر اور انڈس ڈیلٹا کے نیچے کے علاقے متاثر ہوں گے۔ بعض رپورٹس کے مطابق، 2050 تک ٹھٹہ کا شہر مکمل طور پر سمندر میں ڈوب جائے گا۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں سندھو دریا کو دنیا کے مرنے والے دریاؤں میں شمار کیا گیا ہے۔
دوسری طرف موجودہ حکومت جو پیپلز پارٹی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت سے کام کر رہی ہے، پنجاب کے چولستان کے علاقے میں لاکھوں ایکڑ غیر آباد رقبے کو آباد کرنے کے لیے سندھو دریا سے 6 نئے کینال نکالنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ “گرین پاکستان” منصوبے کے تحت، صدر آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت اجلاس میں ان کینالوں اور ارسا ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کا اعلان کیا گیا جس پر صدر زرداری نے دستخط بھی کر دیئے ہیں۔ حکومت پنجاب کی جانب سے تجویز کردہ ’چولستان کینال اینڈ سسٹمز فیز ون‘ کے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 211 ارب 34 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ تاہم دفاعی حکام نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی تنصیبات اور سہولیات کو نہری نظام سے دور منتقل کرنے کے لیے 19.5 ارب روپے کی اضافی لاگت کی ضرورت ہے، جس سے مجموعی لاگت 230.84 ارب روپے ہوگئی ہے۔مجوزہ منصوبہ گرین پاکستان انیشی ایٹو کا حصہ ہے اور اسے وفاقی حکومت، محکمہ آبپاشی پنجاب، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) اور پنجاب بورڈ آف ریونیو کی حمایت حاصل ہے تاکہ کارپوریٹ فارمنگ اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے چولستان خطے میں زراعت میں مدد ملے۔
مجوزہ منصوبے کا مقصد بنجر زمینوں کو زرخیز زمینوں میں تبدیل کرنا، زرعی پیداوار میں اضافہ اور ان علاقوں میں کاشت کو ممکن بنانا ہے جو پہلے پانی کی کمی کی وجہ سے کاشتکاری کیلئے موزوں نہیں تھے،دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈس ریوسسٹم اتھارٹی (ارسا) نے خریف سیزن (یعنی اپریل تا ستمبر) کی مدت تک اس منصوبے کیلئے پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کردیا ہے۔ گرین پاکستان انیشی ایٹوپلان میں چولستان فلڈ فیڈر کینال، گریٹر تھل کینال، کچھی کینال کی تعمیر،تھر کینال کی تعمیر اور چشمہ رائٹ بینک کینال کی تعمیر بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ حکومت سندھ نے پنجاب میں 200 ارب روپے سے زائد کے نئے آبپاشی منصوبے کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، پانی کی تقسیم کے معاملے پر دونوں صوبے متعدد بار آمنے سامنے آچکے ہیں، اس منصوبے کے سبب اس تنازع میں مزید اضافے کا امکان ہو سکتا ہے۔مجوزہ کینالوں کی تعمیر کیخلاف اس وقت سندھ بھر میں زبردست احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، اور 17 نومبر کو “دریا بچاؤ کمیٹی” کے تحت کراچی سے کارونجھر تک زبردست احتجاجی مظاہرے،ریلیاں اور سیمنار منعقد کئے گئے جن میں جماعت اسلامی نے بھی بھرپور شرکت کی ان مظاہروں میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور حکومتی اداروں کو پیغام دیا کہ “سندھ کے عوام سندھو دریا پر ڈاکہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے”۔اس منصوبے کے خلاف پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی اور باشعور طبقے نے احتجاج کیا۔ یہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی کو اس احتجاج کی قیادت کرنی چاہیے تھی، کیونکہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں کی عوام نے مسلسل چوتھی بار پیپلز پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں اس کو اپنا وجود قائم رکھنے کیلئے بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سندھ کی نمائندگی کرنے کے دعویدار اس جماعت نے اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے سندھ کے کروڑوں عوام کی زندگی اور موت کے اس اہم مسئلے پر سوائے بیان بازی کےکچھ بھی نہیں کیا ۔
چولستان کینال کے لیے 211 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو 10 ہزار ایکڑ زمین 20 سال کے لیے لیز پر دی گئی ہے۔سندھ کے ماہرین اور عوام اس منصوبے کو سندھ کی معیشت اور ماحول کے لیے انتہائی نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ سندھ کی معیشت کا بڑا دارومدار زراعت پر ہے، جس میں خاص طور پر سندھ دریا کا پانی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر پنجاب میں نئے کینال بنائے گئے تو سندھ کو جو پانی مل رہا ہے، وہ بھی نہیں ملے گا، جس سے سندھ کی زرعی زمینیں تباہ ہو جائیں گی اور اس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ سندھ کے لوگوں کو دریائے سندھ سے چشمہ جہلم لنک کینال، تونسہ پنجند کینال کے ذریعے پانی لینے پر بھی سخت اعتراض اور تحفظات ہیں۔ اس حوالے سے سندھ کا موقف ہے کہ یہ دونوں کینال 1991پانی معاہدے کیخلاف ورزی ہیں جس کی وجہ سے سندھ کے ٹیل کے علاقوں میں پانی نہیں آرہا۔یہ دونوں کینال سندھ کی اجازت کے بغیر چل رہے ہیں۔ارسا ایکٹ 1992 میں وجود میں آیا تھا جس کا بنیادی مقصد صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کو منصفانہ بنانا اور اختلافات کو ختم کرنا تھا۔لیکن اب ارسا ایکٹ میں ترمیم کی جارہی ہے جس سے مزید انتشار پیدا ہوگا۔سندھ بالخصوس ضلع ٹھٹہ، سجاول، بدین اور ٹنڈومحمد خان شدید پانی کی قلت کا شکار ہیں ۔مجموعی طور پر انڈس بیسن میں دن بدن پانی کم ہورہا ہے 1976 سے 1998 تک کوٹری بیراج سے سالانہ 40.69ملین ایکڑ فوٹ جبکہ 1999 تا2022 کم ہوکر 14ملین ایکڑ رہ گیا ہے ۔
پیپلزپارٹی پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک سندھ صوبے میں سب سے زیادہ عرصہ حکمران رہی ہے، اور گزشتہ 16 سالوں سے مسلسل سندھ کی اقتدار پرقابض ہے۔ اپنے دور اقتدار میں ایک طرف سندھ میں دوہرا بلدیاتی نظام، کارونجھر سمیت قیمتی قدرتی وسائل کی لوٹ مار، بحریہ ٹاؤن سے لے کر ڈی ایچ اے اور ہاکس بے کی لاکھوں ایکڑ قیمتی زمینوں کی من پسندلوگوں میں بندربانٹ اور سندھ کے عوام کو تعلیم، صحت، صاف پانی اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے جبکہ سندھ کے عوام کو بھوک، بدحالی، بے روزگاری اور ڈاکو راج کا تحفہ دیا گیا ہے۔ دوسری طرف، پیپلز پارٹی کے نچلے درجے کے قائدین بھی ارب پتی بن چکے ہیں۔ سندھ کی موجودہ حکومت کے چوتھے دور میں بھی سندھ کے عوام انصاف، امن، تعلیم، صحت اور روزگار کے لیے پریشان ہے۔ مگر اگر اب سندھ کی زندگی کے مرکز سندھو دریا پر نئے کینال اور بند بنانے کی کوشش کی گئی تو شاید سندھ میں ان کی حکومت زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکے۔ سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ضروری ہے۔سندھو دریا پر نئے نہروں کی بات ہو یا سندھ کے وسائل پر قبضہ ہو، ان تمام معاملات میں پ پ ملوث پائی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کو اس معاملے پر غور کرنا چاہیے اور پانی کی تقسیم کے معاملے کو 1991 کے معاہدے کے مطابق حل کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے کسی بھی صوبے کے حقوق کی پامالی نہ ہو۔ پنجاب میں مختلف کینالوں میں جواضافی پانی لیا جارہا ہےاس کا آڈٹ کیا جائے۔کسی بیرونی اچھے ساکھ کی حامل کنسلٹنٹ ادارے کے ذریعے ان چھ کینالوں کی فزیبلٹی رپورٹ چیک کی جائے۔ وفاقی حکومت فیصلہ اکثریتی بنیادوں کی بجائے فنی ماہرین کے مشاہدے کی روشنی میں کرے کیوں کہ اس طرح کے متنازعہ کینال میرٹ کی بجائے طاقت کے زور پر بنائے گئے تو پھر صوبوں کے درمیاں پانی پر موجود خدشات میں مزید شدت آئے گی اور عوام میں بھی نفرتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
سندھ کےعوام کبھی بھی اپنے حقوق اور وسائل سے دستبردار نہیں ہونگے، نہ ہی سندھو دریا پر ناجائز قبضہ برداشت کریں گے کیوں کہ یہ سندھ کے کروڑوں لوگوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس مرحلے پر سندھ کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت ملک جس نازک دور سے گزر رہا ہے، ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کےحالات انتہائی مخدوش ہیں ایسے حالات میں ایک اور صوبے میں نئے تنازعے کو جنم دینے کی بجائے موجودہ تنازعات کو ختم کرنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کوٹھنڈے دل سے متنازعہ مسائل کا حل نکالنے کیلئے راستہ نکالنا چاہیے۔جماعت اسلامی سندھ نے ہر مشکل گھڑی میں سندھ کے عوام کی مدد اور اپنے وسائل کے بل بوتے پر جو ممکن ہوسکا مدد کیا ہے ، سندھ میں سیلاب، طوفانی بارشوں اور تھر میں قحط سالی کے دوران بڑھ چڑھ امدادی سلسلہ، سیلاب کے بعد ہزاروں افراد کو نئے گھربناکر دینے، راشن اور خیمے فراہم کرنے سمیت سندھ کے ہر اہم مسئلے پر ہم صوبے کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم نے آگے بڑھ کر عوامی خدمت کی نئی مثال قائم کی ہے، ہم سمجھتے ہین کہ ارسا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم دریائے سندھ کی اور صوبہ سندھ کی زندگی اور بقا کیخلاف بہت بڑی سازش ہے اسلئے جماعت اسلامی سندھ ہر فورم پر اس طرح کی سازشوں کیخلاف اپنا کردار ادا کررہی ہے اورآئندہ بھی ہم بھرپور انداز میں عوام دشمن منصوبوں کیخلاف مزاحمت کرتے رہیں گے۔
Load/Hide Comments