سپریم کورٹ، اوگرا آرڈیننس 2002کی شق 8(3)اورشق12 جبکہ نیشنل ٹیرف رولزکی تشریح بارے درخواستوں پر سماعت 10جون تک ملتوی

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے اوگرا آرڈیننس 2002کی شق 8(3)اورشق12جبکہ نیشنل ٹیرف رولزکی تشریح کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر سماعت 10جون تک ملتوی کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی اورکیس کو ختم کیا جائے گا۔ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے گیس کی قیمت میں ردوبدل کے حوالہ سے وفاقی حکومت نے 40روز میں منظوری دینا تھی جو نہیں دی گئی، اگر حکومت منظوری نہیں دیتی توپھر پرانا تخمینہ برقراررہے گا۔ اگر وفاقی حکومت 40روز میں نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرتی توکیا اوگرا نوٹیفکیشن جاری کرسکتا ہے۔ ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے، ہرسال تمام شعبوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں، وفاقی حکومت اوراوگرادونوں اپنا کام نہیں کررہے ایک سال بعد نوٹیفکیشن جاری کیا جو کہ سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قراردے دیا۔ اگروفاقی حکومت نے بس مس کردی تھی توسندھ ہائی کورٹ اوگرا کو ہدایات دے دیتی کہ وہ نوٹیفکیشن جاری کردے۔

آئندہفتہ بڑا پیچیدہ ہے،آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں بہت کچھ ہونے جارہا ہے، بینچ دستیاب نہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روزسپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1میں مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی)،ایم /ایسس سوئی سدرن گیس پائپ لائنز، لاہور، ہلٹن فارما (پرائیویٹ)لمیٹڈ کلراچی،ایم/ایس پاپولرفوڈ انڈسٹریز(پرائیویٹ)لمیٹڈاوردیگر ، ایم/ایک ہوٹل گلیکسی (پرائیویٹ)لمیٹڈ کراچی، انڈس موٹرز کمپنی لمیٹڈ ، کراچی، لکی سیمیٹ لمیٹڈ، پشاور، ایم/ایس ات ٹی ایم انڈسٹریز (پرائیویٹ )لمیٹڈ، کراچی، ایم/ایس لطیف گھی انڈسٹریز (پرائیویٹ)لمیٹڈ کراچی اوردیگر، بلیوٹیک سی این جی اسٹیشن ، پشاور، فرنٹیئر فائونڈری (پرائیویٹ)لمیٹڈ ، پشاور اوردیگر کی جانب سے سیکر ٹری وزارت پیٹرولیم وقدرتی وسائل کے توسط سے وفاق پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر 30درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست میں اوگرا آرڈیننس 2002کی شق 8(3)اورشق12جبکہ نیشنل ٹیرف رولز کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ایس ایس  جی سی کے وکیل سابق اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان نے کراچی رجسٹری سے ویڈیو لنک کے زریعہ پیش ہوکردلائل دئیے۔

خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ 2015اور2018کے گیس کی قیمتوں کے حوالہ سے نوٹیفکیشنز کا معاملہ ہے، ہم سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ آئے ہیں۔ خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ اوگراآرڈینس 2002کے سیکشن 8(3)کے حوالہ سے سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے صرف ٹائم لائن کاایشوہے، مختصر حقائق بتائیں، اوگرا اس فنگشن کی انجام دہی کے نتیجہ میں کس چیز کا حصول کرنا چاہتا ہے، اس میں عوامی مفاد کا عنصربھی شامل ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے 40روز میں منظوری دینا تھی جو نہیں دی گئی، اگر حکومت منظوری نہیں دیتی توپھر پرانا تخمینہ برقراررہے گا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تا کہ ہرمرتبہ جب ایس ایس جی سی کی جانب سے نئی تجویز دی جاتی ہو گی توگیس کی قیمت بڑھ جاتی ہوگی، ہرسال توقیمت بڑھ جاتی ہو گی اگر وفاقی حکومت ناکام ہوتی ہے توپھر اوگرا اپنا کام کرسکتا ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھاکہ ہر صورت میں بلند ترین قیمت نوٹیفائی کرنا ہوگی۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت گیس مہنگی کرنے کی منظوری دے گی تواوگرا منظوری دے دے گی، یہ ساری مقدمہ بازی 2014سے چل رہی ہے، اُس وقت سے منظوری ہی نہیں ہوئی، کب اوگرانے وفاقی حکومت کو معاملہ بھجوایا تھا حقائق بتائیں، 31اگست2015کو جاری ہونے والا نوٹیفکیشن ایک سال تاخیر سے جاری ہوا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت 40روز میں نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرتی توکیا اوگرا نوٹیفکیشن جاری کرسکتا ہے، جس چیز کی وفاقی حکومت نے منظوری دینا تھی اس میں اورکون سی چیزیں منظورہونا تھیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے، ہرسال تمام شعبوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں، وفاقی حکومت اوراوگرادونوں اپنا کام نہیں کررہے ایک سال بعد نوٹیفکیشن جاری کیا جو کہ سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قراردے دیا۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ پہلے ہم پرائیویٹ پارٹیز کے وکلاء کوسنیں گے اس کے بعد وفاق اوراوگرا کے وکیل کو سنیں گے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم 2014سے2017کے چار نوٹیفکیشنز کی بات کررہے ہیں جو سب تاخیر سے جاری ہوئے، ہمارے سامنے 2019،2020اور2021کے کیسز بھی لگے ہوئے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ خصوصی قانون کے سیکشن 12کے ہوتے کس طرح دعویٰ یا رٹ  پیٹیشن قابل سماعت ہے، سب سیکشن 2پڑھ لیں، اس شق کی آج تک تشریح نہیں ہوئی، دروازے بند نہیں کیئے گئے دادرسی ہائی کورٹ کے پاس موجود ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیسے ہم خصوصی قانون کو نظرانداز کریں اور آئین کے آرٹیکل 199کے تحت رٹ قابل سماعت قراردیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ پہلا فیصلہ 15اگست 2017کو آیا جو کہ سال 2014-15کے حوالہ سے ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ عدالت یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ اتھارٹی نوٹیفیکیشن جاری کردے، اگروفاقی حکومت نے بس مس کردی تھی توعدالت اوگرا کو ہدایات دے دیتی کہ نوٹیفکیشن جاری کردے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھاکہ سارے فیصلے ایک جگہ کیوں نہیں لگادیتے تاکہ سہولت ہو۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم سوموار سے دوبارہ کیس کو سنیں گے، تمام فیصلے اکٹھے کر کے لگائے جائیں اور متعلقہ چیزوں کو ہائی لائٹ کیا جائے، ہم روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے وربہ پھر کیس کی باری نہیں آتی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا جسٹس محمد علی مظہر کیس سن سکتے ہیں۔ اس پر وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ جسٹس محمد علی مظہر نے ہی بطور جج سندھ ہائی کورٹ فیصلہ لکھا ہے۔ اس موقع پر جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ میں نے توبطور جج سندھ ہائی کورٹ کیس نہیں سنا۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ نہیں سنا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ جسٹس منیب اختراورجسٹس محمد علی مظہر نے سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس عائشہ اے ملک اورجسٹس شاہد کریم نے لاہور ہائی کورٹ میں یہ کیس سنا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں بہت کچھ ہونے جارہا ہے، بینچ دستیاب نہیں۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ جون کے پہلے ہفتے میں کیس سماعت کے لئے مقررکردیتے ہیں، کیس 10جون سے روزانہ کی بنیاد پر سنیں گے اورختم کریں گے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ اوگراآرڈینس 2002کے سیکشن 8(3)اورسیکشن 12اور نیشنل ٹیرف رولز2004کی تشریح کا معاملہ ہے۔ لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ نے قراردیا ہے کہ کیس قابل سماعت نہیں۔ اوگرا وکیل کا کہنا تھا کہ پرائس نوٹیفکیشن ہرسال جاری کیا جاتا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گزار پراپر پیپر بکس جمع کروائیں۔ عدالت نے مزید سماعت 10جون تک ملتوی کردی۔