سپریم کورٹ ،خاتون کو جنسی طور پر حراساں کرنے کا کیس ، نوکری سے کمپلسری ریٹائرڈ کیئے جانے والے درخواست گزار کی درخواست خارج

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے خاتون کو جنسی طور پر حراساں کرنے کے کیس میں نوکری سے کمپلسری ریٹائرڈ کیئے جانے والے درخواست گزار کی درخواست خارج کردی۔جبکہ جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئے ہیں کہ تین فورمز نے درخواست گزارکے خلاف فیصلہ دیا ہم کیسے مداخلت کریں۔ سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سپرم کورٹ کے کورٹ روم نمبر2میں بدھ کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔

بینچ نے جنسی حراسانی کے کیس میں ملازمت سے کمپلسری ریٹائرڈ کئے جانے والے راجہ تنویر صفدر کی جانب سے تہمینہ یاسمین اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے آغا محمد علی بطور وکیل پیش ہوئیے جبکہ مدعا علیہ خاتون ذاتی حیثیت میں پیش ہوئیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کا خاتون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے وکیل کرنا ہے کہ نہیں۔ ا س پر خاتون نے نفی میں جواب دیا۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ دوفورمز پر فیصلہ ہوچکا ہے سپریم کورٹ میں دوبارہ کیس چلانا چاہتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ سارے گرائونڈز فیکٹس کی بنیاد پر ہیں وہی کیس ہائی کورٹ لائے اور وہی کیس ہمارے پاس لائے، حراساں کرنا مختلف چیز ہے اور بدنام کرنا مختلف چیز ہے۔ جسٹس منیب اختر کاکہنا تھا کہ درخواست گزار نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے کون سی ریمیڈی استعمال کرنی ہے، دونوں ایک ساتھ استعمال نہیں ہوسکتیں۔ جسٹس منیب اخترکاکہنا تھا کہ جنسی حراسانی کا کیس کس قانون کے تحت بنتا ہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ انسدادحراسیت ایکٹ کے تحت بنتا ہے۔

جسٹس منیب اخترکا کہنا تھا پہلی مرتبہ درخواست گزار کو سروس لاء کی خلاف وزری پر سزاہوئی جبکہ دوسری مرتبہ مختلف قانون کے تحت سزا ہوئی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے مئوکل کے خلاف جنسی حراسانی کا کوئی کیس ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس منیب اخترکا کہنا تھا کہ تین فورمز نے درخواست گزارکے خلاف فیصلہ دیا ہم کیسے مداخلت کریں۔عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے مسمات پری زاد اوردیگر کی جانب خالد احمد مرحوم کے لواحقین اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے حوالہ دائر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے محمد منیرپراچہ بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ کیس زائدالمعیاد ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلے کی کاپی کے لئے اپلائی کیا جو تاخیر سے ملی اس لئے درخواست دائر کرنے میں تاخیر ہوئی۔ اس پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جب کاپی تیار ہوجاتی ہے تویہ وکیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے وصول کرے، وکیل اگر 10سال کاپی وصول نہ کرے توکیا ہوگا، مقررہ مدت میں اپیل دائر کرنے کا معاملہ دہائیوں قبل طے ہوچکاہے۔ عدالت نے اپیل 89دن زائد العیاد ہونے کی بنیاد پر ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔