ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس کی چیئر پرسن کا وفاقی وزراء کی لاپتہ افراد کے معاملے پر کی گئی پریس کانفرنس پراظہار تشویش

اسلام آباد(صباح نیوز)ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے وفاقی وزراء کی لاپتہ افراد کے معاملے پر کی گئی پریس کانفرنس پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ کسی بھی ریا ست اور معاشرے میں جبری گمشدگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اگر جبری گمشدہ افراد کے خلاف کوئی ثبوت ہیں تو انہیں آئین و قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے، اگر سیاسی بصیرت کے ساتھ ،پر خلوص کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ چار دہائیوں کا پرانا مسئلہ حل نہ ہو سکے ۔

،بدھ کو وفاقی وزراء ا عظم نذیرتارڑ اور عطا تارڑ کی پریس کانفرنس پر ردرعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے جاری بیان میں آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ انٹر نیشنل قانون کے مطابق حالات کیسے بھی ہوں شہریوں کو لاپتہ نہیں کیا جا سکتا۔ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی لیڈرشپ نے وفاقی وزراء کی پریس کانفرنس کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ جبری گم شدہ افراد صرف کمیشن میں درج نہیں ،وہ جو عدالتوں میں رل رہے ہیں، وہ جو آج تک رپورٹ درج نہ کروا سکے ان کا کیا بنے گا؟دوسری بات یہ کہ 7 ہزار کی کامیابی کی کہانی یہ ہے کہ جو شہید کر د ئیے گئے وہ بھی کیس حل ہو گئے، جو ہمیشہ کے لیے انٹرنمنٹ سینٹر میں آگئے وہ بھی کیس حل ہو گئے اور جن کا پروڈکشن آرڈر جاری ہو گیا تو اس کی فائل ہی بند ہو گئی۔

اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے خود کو جبری گمشدہ کر لیا وہ بھی لسٹ سے خارج ہو گئے،ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس نے وزیر قانون کی لاپتہ افراد کے معاملے پر کی گئی پریس کانفرنس پر تشویش کا اظہار کیا ، چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ حکومت راتوں رات مسئلے کوحل نہ کرے مگر کم از کم سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کی طرف لے کر جائے اگر سیاسی بصیرت کے ساتھ ،پر خلوص کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ چار دہائیوں کا پرانا مسئلہ حل نہ ہو سکے ۔انہوں نے کہاکہ انٹر نیشنل قانوں کے مطابق کسی بھی صورتحال میں چاہے وہ دہشت گردی ہو، جنگی حالات ہوں ،ایمرجنسی ہو یا کوئی بھی وجہ ہو، شہریوں کو لاپتہ نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہاکہ ہم اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک قانون جو وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری2021 میں لے کر آئی تھیں، ہر سال اس پر بحث ہوتی رہی اور 2023 میں بظاہر وہ قومی اسمبلی سے پاس بھی ہو گیا مگر سینٹ سے پاس نہ ہو سکا جس کی وجہ سے آج تک یہ قانونی حیثیت حاصل نہیں کر سکا اقوام متحدہ کا قانون برائے جبری گمشدگی پر بھی دستخط نہ کیے گئے نہ ہی حکومت نے اس کی توثیق کی۔ تو آخر حکومت کیا چاہتی ہے ؟ جبری گمشدگی کے متاثرین آخر کہاں جائیں اور کیسے اپنا مسئلہ حل کروائیں؟، آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاکہ کابینہ پر مشتمل کمیٹی سے یہ معاملات نہ کبھی حل ہوئے ہیں اور نہ ہوں گے ہاں اگر واقعی حکومت سنجیدہ ہے تو جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کو کمیٹی میں شامل کریں اور ان کی سفارشات کے مطابق اس مسئلے کو حل کرے،واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ اور عطا تارڑ نے پریس کانفرنس کی تھی۔

اس موقع پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ حکومت کو اپنی ذمہ داری کا پورا احساس ہے ، پاک افواج اور عوام نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کی قیمت ادا کی۔انھوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ پیپلزپارٹی کے دورمیں اٹھایا گیا، یہ معاملہ2011 میں اٹھا پھر کمیشن بنایا گیا۔آج تک کوئی 10 ہزار 200 کیسز لاپتا افراد کے کمیشن میں گئے اور8 ہزار کے قریب کیسز حل طلب تھے وہ حل ہوئے اور ابھی 23 فیصد زیر التوا ہیں اس موقع پروزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ اتنا آسان نہیں، اس کی بہت ساری جہتیں ہیں۔ ہمیں اس کا سیاسی حل نکالنا ہے۔ لاپتا افراد کا معاملہ دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے یہ چار دہائیوں پر مشتمل مسئلہ ہے، ہم دوبارہ وزیراعظم کی ہدایت پر اس پر کام کر رہے ہیں مگر جلد بازی یا عدالت کے احکامات سے بھی ایک رات میں حل نہیں ہو سکتاجو عدالتی احکامات پر راتوں رات حل نہیں ہو سکتاکابینہ کمیٹی لاپتہ افراد کے حوالے سے معاملہ حل کرنے کے لیے اپنی تجاویز پیش کرے گی۔