سپریم کورٹ کے 6رکنی لارجر بینچ نے سویلین کے ٹرائل کا معاملہ مزید بڑے بینچ کی تشکیل کیلئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی کو بھجوا دیا

اسلام آباد (صباح نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں6رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے حوالہ سے دائر نظرثانی درخواستوں پرسماعت کے لئے مزید بڑے بینچ کی تشکیل کے حوالہ سے غور کے لئے معاملہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023کے تحت قائم 3رکنی کو بھجوا دیا جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر بینچ پر عدم اعتماد کی بات آ گئی تو پھر کوئی اور ہی سپریم کورٹ ہو گی، اقلیتی ہو یا اکثریتی، اسی بینچ کا فیصلہ ہو گا، مدعا علیہ کے وکیل کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کی جن آبزرویشنز کا حوالہ دیا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ کیس پانچ رکنی کے بجائے بڑے بینچ کے سامنے لگنا چاہئے تھا۔سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل چھ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف شہداء فائونڈیشن بلوچستان، وفاقی حکومت کی جانب سے سیکرٹری وزرات دفاع، وزارت قانون انصاف اور وزارت داخلہ کے توسط سے اور حکومت پنجاب ،حکومت بلوچستان سمیت دیگر کی جانب سے دائر 50 نظرثانی درخواستوں پرسپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 4میں سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر سینئر وکیل سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ روسٹر م پر آئے اور انہوں نے کہا کہ25مارچ کا عدالت کا آخری حکم ہے، میں نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے فریق بننے کی درخواستیں دائر کی تھیں جن پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان کو ہدایت کی کہ وہ روسٹرم پر آئیں اور جن لوگوں کو عید سے پہلے فوجی عدالتوں کی جانب سے رہا کر دیا گیا، ان کے حوالے سے بتائیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سزا معطل کی گئی ہے یا کیا ہوا؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ رہا ہونے والوں کو ایک سال یا اس سے زائد سزا ہوئی اور جن لوگوں کو ایک سال سے زائد سزا ہوئی تھی ان کی سزا آرمی چیف کی جانب سے معاف کر دی گئی اور انہیں رہا کر دیا گیا۔ اس موقع پر سینئر وکیل بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن نے پیش ہو کر بتایا کہ رہا ہونے والوں کو ایک سال کی سزا ہوئی تھی ان میں ایک لڑکا ایسا بھی تھا جس کا ٹرائل ہی نہیں ہوا اور اس کو رہا کر دیا گیا، اب وہ چھپتا پھر رہا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں25لوگوں کا بتایا گیا تھا اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ20سے25 لوگوں کا بتایا تھا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ فیصلے سنائے گئے ہیں اور وہ ریکارڈ پر ہیں کہ نہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ ریکارڈ پر نہیں ہیں۔

اس دوران کراچی سے ویڈیو لنک پر پیش ہوتے ہوئے وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ جو 20 فیصلے سنائے گئے ہیں وہ ریکارڈ پر لائے جائیں۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کیا پروسیجر اپنایا گیا ہم دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے یہ فیصلے ریکارڈ پر رکھ دیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مرضی کے وکیل کی سہولت دی گئی یا نہیں۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے فوجی عدالتوں کے فیصلے کے اجرا کا سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کر رکھا ہے، پھر بھی اگر آپ کہتے ہیں تو ہم فوجی عدالت کے فیصلے منگوا لیتے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ایک سال قید میں رکھنے کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں دے رہے جو باہر آ گئے ہیں ان کے نام اپنے آرڈر میں لکھ دیں۔ اس دوران سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بتایا کہ جسٹس سید منصو رعلی شاہ اور جسٹس یحییٰ خان آفریدی کے فیصلوں کی روشنی میں معاملہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کے تحت قائم تین رکنی کمیٹی کو بھجوایا جائے تاکہ سماعت کے لئے8یا 9رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ سماعت کے لئے 9 سینئر ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جائے، کیا آئین کے تحت سویلینز کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے کہ نہیں؟ اس سوال کا جواب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تلاش کیا جائے۔

خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ قانون یہ پابندی نہیں لگاتا کہ 9 یا دس رکنی بینچ سماعت کے لئے تشکیل دیا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ وکیل کی جانب سے جسٹس یحییٰ آفریدی کی جن آبزرویشنز کا حوالہ دیا گیا، اس سے لگتا ہے کہ کیس پانچ رکنی کے بجائے بڑے بینچ کے سامنے لگنا چاہئے تھا۔ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ 9 رکنی بینچ سنے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر وہ بڑے بینچ کی تشکیل کیلئے دلائل دینا چاہتے ہیں تو دیں جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ نہیں کیا اور آخر تک بینچ کا حصہ بنے رہے۔ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو الیکشن کے معاملے پر خط لکھا تھا اور ان سے بڑا بینچ بنانے پر استدعا کی تھی۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا قاضی فائز عیسیٰ کو لکھا گیا خط جوڈیشل آرڈر ہے۔ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آتی کیوں کمیٹی نے یہ چھ رکنی بینچ بنایا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کسی کا خط ہم پر بائنڈنگ نہیں۔ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ ہمیں موجودہ بینچ کے کسی رکن پر اعتراض نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اگر معاملہ کمیٹی کو واپس بھجوانا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے دلائل دیں۔ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ یہ بینچ آبزرویشن کے ساتھ کہ معاملہ اہم آئینی نوعیت کا ہے اس لئے بڑا بینچ تشکیل دیا جائے، کسی کو کوئی نقصان نہیں ہو گا اگر 9 رکنی بینچ بنایا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس پر نظرثانی ہونی چاہئے اور اس حوالے سے لارجر بینچ بننا چاہئے۔ سینئر وکیل سلمان اکرم راجہ نے پیش ہو کر کہا کہ کیس کی سماعت کے لئے آٹھ یا نو رکنی بینچ بنایا جائے۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ پہلے پانچ رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ کیا اس کا آٹھ رکنی بینچ پر کیا اثر ہو گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ ریفری جج والا کیس نہیں ہے۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اگر چار ججز پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیں گے تو یہ مناسب نہیں ہو گا۔ جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ اگر یہ بینچ بھی پہلے فیصلے کی توثیق کر دے تو کیا ہو گا۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ 9 رکنی بینچ کا فیصلہ ہو گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اقلیتی ہو یا اکثریتی، اسی بینچ کا فیصلہ ہو گا، جسٹس یحییٰ آفریدی کو چاہئے تھا کہ وہ کیس نہ سنتے۔ جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ اگر کمیٹی دوبارہ چھ رکنی بینچ بنا دے تو کیا ہو گا؟ اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ پھر ہم اپنا سر جھکا دیں گے۔

اس دوران اعتزاز احسن نے اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر بولنے کی کوشش کی تو جسٹس محمد علی مظہر نے انہیں ہدایت کی کہ وہ روسٹرم پر آ کر بات کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اگر بینچ پر عدم اعتماد کی بات آ گئی تو پھر کوئی اور ہی سپریم کورٹ ہو گی۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ کمیٹی کو معاملہ بھجوا دیں ہمیں پھر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ 85 لوگ تحویل میں ہیں اس کیس کی سماعت میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہم نے ابھی تک میرٹ پر کوئی دلائل نہیں سنے۔ جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ اگر نظرثانی میں ججز برابر ہوتے ہیں تو پھر اصل فیصلہ برقرار رہے گا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ نہ ختم ہونے والی مشق ہو گی کہ دوبارہ پانچ ،چار سے فیصلہ آئے۔دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی کا ایڈووکیٹ اعتزاز احسن سے دلچسپ مکالمہ ہوا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ جب ایک معاملے کو طے کر دے اسے نہیں چھیڑا جا سکتا، شیر کو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ہمیں اپنی طاقت کا مکمل ادراک ہے بیرسٹر صاحب۔ دوران سماعت سینئر صحافی اورکالم نگار اور بانی پی ٹی آئی کے بہنوئی حفیظ اللہ خان نیازی نے پیش ہو کر بتایا کہ میرا بیٹا حسان نیازی ملٹری کورٹ سے غائب ہے، 9 ماہ سے ہمارے بچے جسمانی ریمانڈ پر اور حوالات میں بند ہیں۔

بینچ میں شامل ججز میں کوئی بندہ اس پوزیشن میں نہیں جس میں ، میں ہوں۔ مجھے رات کو نیند نہیں آتی، گرفتاری کے تین ماہ بعد پتہ نہیں تھا کہ میرا بیٹا زندہ ہے کہ نہیں۔ اس دوران حفیظ اللہ نیازی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور انہوں نے کمرہ عدالت میں اپنی آواز بلند ہونے پر بینچ سے معذرت کی۔ حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ میں خود پیش ہو کر پارٹی بننا چاہتا ہوں اور دلائل دینا چاہتا ہوں۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے حفیظ اللہ نیازی کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے بیٹے کا معاملہ دیکھیں گے۔ بینچ نے معاملہ مزید بڑے بینچ کی تشکیل کے حوالے سے غور کے لئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء کے تحت قائم سپریم کورٹ کی تین رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا۔دوران سماعت سینئر وکلاء سردار محمدلطیف خان کھوسہ، خواجہ حارث احمد، ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل، فوجی عدالتوں کی تحویل میں موجود ملزمان کے ورثاء اور کلاء اورصحافیوں کی بڑی تعداد بھی کمرہ عدالت میں موجود تھی۔