سپریم کورٹ کاگریڈ9کے ملازم کو ٹائم سکیل نہ دینے پر چیف سیکرٹری بلوچستان کو 19اپریل کو پیش ہونے کا حکم

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سروسز ٹربیونل بلوچستان کے حکم کے باوجود گریڈ9کے سرکاری ملازم کو ٹائم سکیل نہ دینے کے کیس میں چیف سیکرٹری بلوچستان کونوٹس جاری کرتے ہوئے 19اپریل (جمعہ )کے روز سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کی چیف سیکرٹری کو نہ بلانے کی استدعا مسترد کردی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ چیف سیکرٹری کو آنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے، ہم کوئی توہین عدالت کانوٹس تونہیں دے رہے، اگلے جمعہ کو چیف سیکرٹری بلوچستان آجائیں مسئلہ حل ہوجائے گا، جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ دومنٹ میں ہوجاتا ہے،جتنے مرضی پڑھے لکھے ہوں ، ان لوگوں نے گریڈ9میں ہی مرجانا ہے، ہرچیز ممکن ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گردوں کی خریدوفروخت میں ملوث ملزم شعیب خان کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری خارج کردی۔عدالت نے قراردیا کہ ملزم  35سے40لاکھ روپے میں گردہ بیچ رہے ہیں اور لوگوں کو ڈھونڈ،ڈھونڈ کر لارہے ہیں، انسانی اعضاء کی مارکیٹنگ کمپنی کھولی ہوئی ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1میں مختلف کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے چیف سیکرٹری حکومت بلوچستان اوردیگر کی جانب سے محمد اعظم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔بلوچستان حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے پیش ہوکردلائل دئیے جبکہ مدعا علیہ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری سے ویڈیو لنک کے  ذریعے پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ایک شخص 9ویں گریڈ میں ہے توکیا وہ ریٹائرمنٹ تک 9ویں گریڈ میں ہی رہے گا۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پالیسی توبنانا ہوتی ہے، مدعا علیہ کو ٹائم سکیل دینا ہے، اپ گریڈیشن کا توکیس ہی نہیں۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ ہوتوسب کچھ سکتا ہے ، جنرل پروموشن میں تائم سکیل نہیں ہوتا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پالیسی بنائیں، پالیسی بنانے میں کیا مشکل کام ہے، ہم نے گزشتہ سماعت پر بھی کہا تھا کہ پالیسی بنائیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جن ملازمین کی پروموشن نہیں ہوسکتی تھی ان کے لئے ہم نے 3سال اور7سال بعد ٹائم سکیل کی پالیسی بنائی جس سے انہیں بغیر پروموشن مالی فوائد مل جائیں گے۔ جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ میں ہم نے 7سال بعد ٹائم سکیل کی پالیسی بنائی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چیف سیکرٹری کو بلائیں یا سیکرٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کو بلائیں، میں مطمئن نہیں کہ ہوہی نہیں سکتا، جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ دومنٹ میں ہوجاتا ہے،جتنے مرضی پڑھے لکھے ہوں ، ان لوگوں نے گریڈ9میں ہی مرجانا ہے، ہرچیز ممکن ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ لیٹربازی کرتے رہیںاورملازم اس دوران ریٹائرڈ ہوجائے گا،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل 2022کا لیٹردکھارہے ہیں، 2سال میں معاملے کے حوالے سے کچھ نہیں ہوا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ انہیں بھی مدعاعلیہ کے ساتھ ہمدردری ہے تاہم قانون کے مطابق انہیں ٹائم سکیل نہیں دیا جاسکتا۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ ہمدردی سے ملازم کی کوئی مدد نہیں ہو گی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بار، بار استدعا کی چیف سیکرٹری کوعدالت نہ بلایا جائے ہمارے لئے مسئلہ ہوتا ہے۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ چیف سیکرٹری کو آنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 2021کا کیس ہے، اس میں ایشو کیا ہے، میں تواس کا ابھی فیصلہ کرسکتا ہوں۔ عدالت نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو 19اپریل (جمعہ )کے روز پیش ہونے کا نوٹس جاری کردیا۔ عدالت نے قراردیا کہ ویڈیولنک کے ذریعے چیف سیکرٹری بلوچستان آجائیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم کوئی توہین عدالت کانوٹس تونہیں دے رہے، اگلے جمعہ کو چیف سیکرٹری بلوچستان آجائیں مسئلہ حل ہوجائے گا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 19اپریل تک ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ نے انسانی اعضاء کی خریدوفروخت میں ملوث گرفتار ملزم شعیب خان کی جانب سے دائر ضمانت بعد ازگرفتاری درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار کی جانب سے عبدالفیاض بطور وکیل پیش ہوئے۔جبکہ ریاست پاکستان کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار انسانی اعضاء کی خریدوفروخت میں سہولت کاری کررہے ہیں،30لاکھ روپے گردے کے لئے۔ جسٹس محمد علی مظہر  نے کہا کہ وکیل کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی گردے بیچنے میں سہولت کاری کرے تویہ جرم نہیں ہو گا، 35لاکھ روپے میں گردہ خریدا۔

جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے گردہ نکالنے کے لئے ڈاکٹر اور میڈیکل سینٹر کابندوبست کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا  کہ یہ قابل ضمانت جرم نہیں، کچھ ایسے جرائم ہوتے ہیں کہ جن کا معاشرے پر برااثر پڑتا ہے، قانون میں ایسی چیزیں کرنے کی ممانعت ہے، یہ سنجیدہ جرم ہے، ملزم پراعانت جرم کابھی الزام ہے، اس طرح کی چیزوں کا معاشرے پر اثر ہوتا ہے، 35سے40لاکھ روپے میں گردہ بیچ رہے ہیں اور لوگوں کو ڈھونڈ،ڈھونڈ کر لارہے ہیں، انسانی اعضاء کی مارکیٹنگ کمپنی کھولی ہوئی ہے۔ عدالت نے ملزم کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری خار ج کردی۔