کابل (صباح نیوز) پاکستان کی وزارت تجارت کا ایک وفد سیکرٹری تجارت خرم آغا کی سربراہی میں تجارتی امور کے بارے میں بات چیت کے لیے کابل کے دورے پر ہے ،دورے میں پاکستان اور افغانستان کے مابین بارڈر کراسنگ پر سہولیات بڑھانے کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ جو کہ دونوں ممالک میں حالیہ خراب صورتحال کے پیش نظر بظاہر ایک حیران کن پیش رفت ہے۔ پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کو ملانے کے لیے افغانستان کی جغرافیائی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان اور افغانستان کے عوام بھی ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رکھنے میں خاصی دلچسپی رکھتی ہے،
پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف درانی نے ایک ویب پورٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارت تجارت و کامرس کا وفد افغانستان کا دورہ کر رہا ہے اور یہ ایک پہلے سے طے شدہ دورہ تھا جس میں تجارت سے متعلق ہمہ جہت پہلوں پر گفتگو کی جائے گی۔پاک افغان حالیہ تنازعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی 2 سہیلیوں کا جھگڑا نہیں یہ 2 مملکتوں کے درمیان کا معاملہ ہے اور اس میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین پہلے بھی تنازعات ہوتے رہے ہیں لیکن ساتھ میں بات چیت چلتی رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فی الوقت اس دورے کے نتائج کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے ابھی رپورٹس آئیں گی اس کے بعد اس بارے میں بات کر سکوں گا۔سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفیرعلی سرور نقوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور اس کے ساتھ تجارت کے بارے میں بات چیت ہونی چاہیے، ابھی تو بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔ بھارت اور چین میں بہت سے تنازعات ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت بھی چلتی رہتی ہے۔علی سرور نقوی نے کہا گو کہ افغان عبوری حکومت تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اس طرح سے کارروائیاں نہیں کر رہی جو اسے کرنی چاہییں یا جیسا ہم چاہتے ہیں لیکن پھر بھی پاکستان حکومت نے یہ صحیح قدم اٹھایا ہے۔اس سوال پر کہ آیا پاکستان کسی بیرونی دبا وکے نتیجے میں تو یہ بات چیت نہیں کر رہا؟، علی سرور نقوی نے کہا کہ یہ پاکستان کا اپنا فیصلہ ہے اور افغانستان کے ساتھ تجارت بڑھنے سے پاکستان کو افغانستان میں زیادہ کنٹرول حاصل ہو گا۔
پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات منقطع تو نہیں ہوئے اور دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی بھی کوئی پہلی بار نہیں ہوئی۔ جو وفد گیا ہے وہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے بارے میں بات چیت کرے گا، باقی دہشت گردی کے حوالے سے ہماری سکیورٹی فورسز کارروائی بھی کرتی ہیں اور بات چیت بھی اور یہ متوازی سلسلہ چلتا رہنا چاہیے۔سابق سفیر کے مطابق افغان طالبان یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں جبکہ پاکستان کو گلہ ہے کہ افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں کیوں نہیں کرتی۔ لیکن اس کا اثر بہرحال تجارت پر نہیں پڑنا چاہیے، کیونکہ روزانہ سینکڑوں ٹرکس آر پار آتے جاتے ہیں جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔۔