وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کا اجلاس ، ملکی مفاد میں سخت فیصلے لینے کے عزم کا اظہار

اسلام آباد(صباح نیوز)وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل(آئی ایف سی )کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیاہے  اعلامیہ کے مطابق  اجلاس میں سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر ، سبکدوش اور نئی وفاقی کابینہ ، وزرائے اعلی اور دیگر سرکاری افسران نے شرکت کی ۔ کمیٹی کو ایس آئی ایف سی کے اقدام اور ملک میں سرمایہ کاری پر بریفنگ دی گئی ۔اجلاس کے دوران شہبازشریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشکل وقت میں ایس آئی ایف سی آگے بڑھنے کا راستہ ہے، ملک کی خدمت کیلیے ایسے فولادی عزم کی ضرورت ہے جوپہلے کبھی نہیں تھی، معاشی استحکام کی رفتار کو برقرار رکھنے کیلئے ایک مربوط ٹیم کے طور پر کام کریں۔ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کو سیاسی اختلافات ایک طرف رکھنے کی ہدایت بھی کی ۔اجلاس کے دوران آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملکی معیشت کی بحالی کے اقدامات میں بھر پور حمایت اور معاونت کے عزم کا اظہار کیا ، انہوں نے ایپکس کمیٹی کی 2023 میں ایس آئی ایف سی کی لانچنگ پر وزیراعظم کی لیڈر شپ کی کھل کر تعریف بھی کی اور ملک کودرپیش چیلنجز سے نکلنے کیلئے ایپکس کمیٹی نے اتفاق رائے سے آگے بڑھنے پر زور دیا ۔ایپکس کمیٹی نے پالیسیوں کے تسلسل اور ملکی مفاد میں سخت فیصلے لینے کے بھی عزم کا اظہار کیا۔

اس سے قبل ایس آئی ایف سی کی ایپکس کمیٹی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے معیشت کو درپیش چیلنجوں کے حل اور سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کو اہم پلیٹ فارم قرار دیتے ہوئے کہا  کہ ملک کی سلامتی و ترقی کیلئے ہم سب متحد ہیں، وفاق اور صوبوں کو مل کر ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے کام کرنا ہو گا، بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بغیر معیشت کو مضبوط نہیں بنایا جا سکتا، سالانہ تین سے چار ٹریلین روپے کے محصولات ضائع ہو رہے ہیں، 2700 ارب روپے کے محصولات سے متعلق مقدمات عدالتوں میں ہیں، بجلی اور گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ 5 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کے معاہدہ کے بعد آئندہ ماہ 1.10 ارب ڈالر کی قسط جاری ہو جائے گی، آئندہ کڑوے اور سخت فیصلوں کا بوجھ غریب عوام پر نہیں اشرافیہ پر ڈالا جائے گا،وزیراعظم نے کہا کہ آج کے اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندے اور ان کی قیادت موجود ہے، مختلف سیاسی جماعتوں کے منتخب وزرا اعلی، وزرا، سرکاری افسران، آرمی چیف اور ان کی ٹیم کی یہاں موجودگی پوری قوم کیلئے پیغام ہے کہ ہمارا اپنا اپنا منشور ہے اور اپنی اپنی ترجیح ہے لیکن پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور یکجہتی کیلئے آج ہم یہاں پر موجود ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ عبوری حکومت کے دور میں انہوں نے بڑی ذمہ داری اور محنت سے کام کیا، اس کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ان کی ٹیم کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے جس طرح ہماری 16 ماہ کی حکومت کے دوران بھرپور تعاون اور مدد کی اسی طرح نگران حکومت کے دور میں بھی قومی مفاد میں تعاون کا مظاہرہ کیا جو مثالی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ جون 2023 میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کے قیام کی تین چار بڑی وجوہات ہیں، ملک کے اندر اور باہر سرمایہ کاری کے حوالے سے مشکلات اور چیلنجز درپیش تھے، ان کو مختلف وجوہات کی بنا پر ماضی کے ارباب اختیار اور سرکاری افسران حل نہیں کر پاتے تھے،

نیب کے حوالے سے جو معاملات رہے وہ سب کے علم میں ہیں اور سرخ فیتہ بدقسمتی سے ہمارے پائوں کی زنجیر بن چکا تھا، اس کے علاوہ استعداد میں کمی اور نااہلی بھی بہت بڑے چیلنج تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے قیام میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور جو کام پہلے کسی نے نہیں کیا اس کیلئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کو بہت بڑے چیلنجز درپیش ہیں، ایس آئی ایف سی کی ایپکس کمیٹی کے 8 ماہ میں 9 اجلاس ہوئے ہیِں، اس کے علاوہ ایگزیکٹو کمیٹی کے بھی متعدد اجلاس ہوئے، ورکنگ کی سطح پر 200 سے زائد اجلاس ہو چکے ہیں جن کے نتیجہ میں کئی ٹھوس فیصلے ہوئے اور ان پر عملدرآمد بھی ہوا ہے، ایس آئی ایف سی ایک اہم پلیٹ فارم ہے، ماضی میں جو تاخیری حربے اختیار کئے جاتے تھے اور جان چھڑانے کیلئے فائلیں ادھر ادھر کر دی جاتی تھیں اب وہ سلسلہ بند ہو گیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 16 ماہ میں 13 رکنی مخلوط حکومت جب برسر اقتدار آئی تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا، سب جماعتوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ سیاست جاتی ہے تو جائے ریاست کو بچانا ضروری ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدہ ہو گیا ہے، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کی وزارت خزانہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس معاہدہ پر عملدرآمد کرایا جس کے نتیجہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ اب سٹاف سطح کا معاہدہ بھی ہو گیا ہے، امید ہے کہ آئندہ ماہ آئی ایم ایف سے 1.10 ارب ڈالر کی قسط مل جائے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہماری منزل نہیں ہے، ہم نے ملک میں معاشی استحکام لانا ہے اور میکرو سطح پر استحکام کو مزید مضبوط بنانا ہے اور یہ طے ہے کہ ایک اور معاہدہ کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے معاشی استحکام آ جائے گا اور ہماری شرح نمو میں اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا اور ملک میں خوشحالی کا انقلاب آ جائے گا، اس کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں جو مزید ایک پروگرام چاہئے اس کا دورانیہ دو یا تین سال ہو سکتا ہے، اس میں ہم نے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف کرانی ہیں، اس کے بغیر معاشی ترقی ایک خواب ہی رہے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم نے بنیادی اصلاحات نہ کیں، ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں نہ کیں اور ایف بی آر کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز نہ کیا تو معاشی اہداف حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا، رواں مالی سال کیلئے محصولات کی وصولی کا ہدف 9 ٹریلین روپے ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ہماری یہ محصولات 9 ٹریلین نہیں 14 ٹریلین روپے تک ہونا چاہئیں، تین چار ٹریلین کا جو فرق ہے اور یہ مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہو رہے ہیں، اس کی وجوہات کا سب کو علم ہے، اس کے علاوہ ایف بی آر یا کلائنٹس کے کلیمز کی مالیت بھی تقریبا 2.7 ٹریلین روپے تک ہے، ایک ٹریلین کے کیسز ٹربیونلز میں زیر سماعت ہیں، اس کے علاوہ ایپلٹ کورٹس اور ہائی کورٹس میں بھی معاملات زیر سماعت ہیں، اگر ہم اس میں سے آدھی رقم کی بھی وصولی کر لیں تو 1300 ارب روپے سے زائد جمع ہو سکتے ہیں یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے، میکرو استحکام کیلئے بنیادی اصلاحات ناگزیر ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ سالانہ 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہو جاتی ہے، اگر محصولات کی وصولی میں اضافہ ہو گا تو قرضوں میں کمی آ جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت وفاق میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے، صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں بن چکی ہیں، ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا، وفاق اکیلے کچھ نہیں کر سکتا، صوبوں کے ساتھ مل کر معاشی ترقی کیلئے آگے بڑھنا ہو گا، راستے میں دشواریاں اور چیلنجز آئیں گے، مہنگائی کا ایک طوفان ہے، غریب آدمی مہنگائی میں پس گیا ہے، یہ تمام معاملات ہمارے سامنے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بجلی اور گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ 5 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے، 76 سال سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے، کسی ایک حکومت کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، مل کر ہی ان مسائل کو حل کرنا ہو گا، ذاتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہو گی، ہم اپنی منزل تک جلد پہنچ جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ نگران حکومت نے ایس آئی ایف سی کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں، 87 ارب روپے کی بجلی چوری کو بچایا گیا ہے، یہ کام صرف بھرپور عزم کے ساتھ ہی ہو سکتا تھا، ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کی ہے، اسی طرح سمگلنگ کی روک تھام کیلئے جو اقدامات کئے گئے ان کا بھی ملک کو بہت فائدہ ہوا ہے، اسی طرح ایگزم بینک کی شروعات ہوئیں، لینڈ مینجمنٹ سسٹم پر پیشرفت ہوئی، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی ٹرانزیکشن مکمل ہوئی، سرکاری ملکیتی اداروں کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، صرف پی آئی اے کا قرضہ 825 ارب روپے ہو چکا ہے، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں بڑے پیمانے پر بدانتظامی اور کرپشن پائی جاتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے سے بہت اچھے فیصلے کئے گئے اور معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے، کویت اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی اربوں ڈالر کے معاہدے کئے گئے، ٹائیٹ گیس پالیسی پر بھی پیشرفت ہوئی، برائون فیلڈ ریفائنریز اپ گریڈیشن پالیسی، سیڈ ریفامز پر بھی نگران حکومت نے بہت کام کیا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں جعلی بیج اور ادویات کی فروخت ہوتی تھی ان کی روک تھام کیلئے پالیسیاں بنائی گئیں اور یہ تمام اقدامات ایس آئی ایف سی کے تحت ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جتنے بھی سفرا سے میری ملاقات ہوئی ہے میں نے انہیں کہا ہے کہ ہم نے مزید قرضوں اور رول اوورز میں نہیں پڑنا، ہماری خواہش ہے کہ آپ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، اس کیلئے حکومت مکمل تعاون کرے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہوائی اڈوں کی آئوٹ سورسنگ اور پی آئی اے کی نجکاری پر کافی کام ہوا ہے، یہ سب کچھ اسی لئے ممکن ہوا کہ قومی مفاد کو اولیت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آئندہ بہت کڑوے اور سخت فیصلے کرنا ہوں گے لیکن ان فیصلوں کا بوجھ ان طبقات پر پڑنا چاہئے جو اس بوجھ کو برداشت کر سکیں، ماضی میں ایسا نہیں ہوا اور ملک میں اشرافیہ کا کلچر فروغ پاتا رہا اور انہیں ہی مراعات اور سبسڈیز ملتی رہیں اور غریب آدمی کا جو حال ہوا ملک میں بے روزگاری بڑھی اس کی صورتحال سب کے علم میں ہیں، غریب آدمی پہلے ہی مہنگائی میں پس رہا ہے اس کو تحفظ فراہم کرنا ہے، اس حوالے سے وزیر خزانہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ آئندہ بجٹ ان تمام اہداف کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے۔وزیراعظم نے کہا کہ اپنی انا اور اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کو وہ مقام دلانا ہے جس کیلئے لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ نگران دور میں ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے بھرپور اقدامات پر سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، ان کی کابینہ اور سرکاری افسران کو خراج تحسین پیش کیا۔