کلبھوشن یادیو کے علاوہ کتنے سویلنز کافوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا گیا،سپریم کورٹ نے خواجہ حارث احمد سے اعدادوشمارطلب کرلئے

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف کے آئینی بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد سے ، کلبھوشن یادیو کے علاوہ کتنے سویلنز کافوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا گیا اس حوالہ سے اعدادوشمارطلب کرلئے۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا بطور آئینی بینچ ہم 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پابند ہیں۔ جو پروسیجر آرمی ایکٹ میں لکھا گیا ہے اس کے پابند ہیں، آرمی ایکٹ کوہم مان رہے ہیں۔اگرآرمی ایکٹ میں دیئے گئے پروسیجر پر عمل نہ ہوتوپھر بدنیتی ہوگی۔ کیا جرائم پیشہ سرگرمیوں یا ڈسپلن کویقینی بنانے کے لئے آرمی ایکٹ کانفاذ کیا گیا، اگرجرائم کے حوالہ سے الگ قانون سازی کرتے تویہ مسائل نہ ہوتے اور آرمی ایکٹ صرف ڈسپلن کویقینی بنانے کے لئے ہوتا۔

سوال یہی ہے کہ کیا سویلینز کوبھی قانون میں شامل کیا جاسکتا ہے کہ نہیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آرمی ایکٹ میں ایک پروسیجر دیا گیا ہے ہم نے وہ دیکھناہے۔ عدالت نے پروسیجر دیکھنا ہے کیا فئیر ٹرائل کے ملٹری کورٹ میں تقاضے پورے ہوئے۔جبکہ جسٹس سید حسن رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔ کسی کوبغیر سنے سزانہیں دی جاسکتی۔ جبکہ بینچ نے درخواستوں پرمزید سماعت آج  (جمعہ)کے روز تک ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر 7 رکنی آئینی بینچ نے جمعرات کے روز فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالہ سے دائر 39نظرثانی درخواستوں پر سماعت جاری رکھی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جو پروسیجر آرمی ایکٹ میں لکھا گیا ہے اس کے پابند ہیں، آرمی ایکٹ کوہم مان رہے ہیں۔وزارت دفاع کے وکیل اجہ حارث احمد کاکہنا تھا کہ بینچ نے دیکھنا ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے کہ نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ عدالت نے پروسیجر دیکھنا ہے کیا فئیر ٹرائل کے ملٹری کورٹ میں تقاضے پورے ہوئے۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹس نہ ہی سپریم کورٹ میرٹس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس سید حسن رضوی کا کہنا تھا کہ عدالت نے ٹرائل میں پیش شواہد کو ڈسکس نہیں کرنا، عدالت محض شواہد کا جائزہ لینا چاہتی ہے، نیچرل جسٹس کے تحت کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی۔خواجہ حارث احمد کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ1952کا سیکشن 2(1) ڈی ون اگر درست قرار پاتا ہے تو نتیجہ کیا ہوگا، قانون کے سیکشنز درست پائے تو یہ ٹرائل کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت تھیں، ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔

جسٹس سید حسن رضوی کا کہنا تھا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا، تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 2دن آپ نے کہا تھا کہ 2کے علاوہ دیگر کیسز نہیں دیکھ سکتے، ہم نے ریکارڈ دیکھا ہے آپ کویہ بات نہیں کہنی چاہیئے تھی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں ایک پروسیجر دیا گیا ہے ہم نے وہ دیکھناہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا ہے کہ آرٹیکل 10-Aکی خلاف ورزی ہوئی ہے کہ نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کاآرٹیکل 10-Aنہ بھی ہوتوپھر بھی کرینمل پروسیجر1898میں سارا ڈیوپراسیس دیا ہوا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کسی کوبغیر سنے سزانہیں دی جاسکتی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگرآرمی ایکٹ میں دیئے گئے پروسیجر پر عمل نہ ہوتوپھر بدنیتی ہوگی۔ جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک چھوٹا ساسوال ہے ہم اس بات پر بحث کررہے ہیں کہ کیا سویلنز کافوجی ٹرائل ہوسکتا ہے کہ نہیں، کیا کسی نے پروسیجر کوچیلنج کیا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ صرف ایک درخواست سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ پانچ رکنی بینچ نے پہلے دیکھنا تھا کہ درخواستیں قابل سماعت ہیں کہ نہیں اس کے بعد کیس سننا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 1962اور1973کے آئین میں بنیادی حقوق کے حوالہ سے کوئی فرق ہے کہ نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ڈیو پراسیس آف لاء ہمیشہ سے ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ وکیل کہنا چاہتے ہیں کہ اگرتمام بنیادی حقوق ہیں تووہ آئین کے آرٹیکل 8-3کے تحت واپس لیئے جاسکتے ہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں فیئر ٹرائل کے معاملہ پرغور نہیں کیا میں کہتا ہوں کیاہے۔ جسٹس محمدعلی مظہر کاکہنا تھا کہ کیاکسی کے ٹرائل کرنے کاپروسیجر بتایا گیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بنیادی طور پر دیکھنا یہ ہے کہ ترمیم ہونی چاہیے تھی کہ نہیں جس کے زریعہ سویلینز کو آرمی ایکٹ میں شامل کیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 1898کے ایکٹ میں فیئر ٹرائل کاسارا پروسیجر دیا گیا ہے ، فیئر ٹرائل ایکٹ تو 2010میں آیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ آرٹیکل 10-Aکی کیوں ضرورت پڑی۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جسٹس عائشہ اے ملک نے کہا ہے کہ جیسے ہی سویلنز کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگاتویہ فیئرٹرائل کی خلاف ورزی ہوگی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا جرائم پیشہ سرگرمیوں یا ڈسپلن کویقینی بنانے کے لئے آرمی ایکٹ کانفاذ کیا گیا، اگرجرائم کے حوالہ سے الگ قانون سازی کرتے تویہ مسائل نہ ہوتے اور آرمی ایکٹ صرف ڈسپلن کویقینی بنانے کے لئے ہوتا۔

جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ کورٹ مارشل ، حاضر سروس اہلکاروں کے حوالہ سے ڈیل کرتا ہے، اگر ہم نے 2-1-d-1کو کالعدم قراردے دیا جو کہ پانچ رکنی نے کالعدم قراردیا تھااورہم نے فیصلہ معطل کررکھا ہے توپھر ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کاٹرائل انسداد دہشت گردی عدالتوں میں ہوگا اور فوجی عدالت میں کیس نہیں چلے گا اوربرگیڈیئر (ر)ایف بی علی بری ہوجائے گا، 9مئی یا جوبھی ہے اب سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل چل پڑے ہیں، قانون میں کوئی سقم رہ گیا یاجان بوجھ کر ایسا کیا گیا جس کی وجہ سے ہم آج یہ کیس سن رہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے کتنے عرصہ بعدتک ڈسپلن کی پابندی ضروری ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت ہم پابند ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پریکٹس نہیں کرسکتے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 92کے تحت ریٹائرمنٹ کے 6 ماہ بعد تک آرمی ایکٹ کے پابند ہیں۔بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث کوہدایت کہ کلبھوشن یادیو کے علاوہ کتنے سویلنز کافوجی عدالت میں ٹرائل کیا گیا وہ اعدادوشمار دے دیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جو سویلین 2-1-d-1میں آئیں گے ان کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتاہے۔ جسٹس جمال خان مندوکیل کاکہنا تھا کہ کیاسپریم کورٹ اپنے فیصلوں کوماننے کی پابند ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس نقطہ کو اپنے نوٹ میں زیر بحث لایا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ چھوٹا بینچ بڑے بینچ کے فیصلوں سے انحراف نہیں کرسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا بطور آئینی بینچ ہم 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پابند ہیں۔اس پرخواجہ حارث کاکہنا تھا کہ پہلے آئینی بینچ نہیں تھا اورعام بینچ تھے ان کے فیصلوں کے پابند ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سوال یہی ہے کہ کیا سویلینز کوبھی قانون میں شامل کیا جاسکتا ہے کہ نہیں۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ 5رکنی بینچ کی جانب سے جوبھی وجہ دی گئی ہے وہ دیگر فیصلوں سے متصادم ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ بنا ہی عام قانون سازی کے زریعہ ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ہم نے غیر ترمیم شدہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923کوبھی دیکھناہے، 2023میں ہونے والی ترامیم کاماضی سے اطلاق نہیں ہوگا۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ مجسٹریٹ کاملزمان کوفوجی تحویل میں دینے کاکوئی حکمنامہ نہیں ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آرڈرز آئے ہوئے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کون سی دفعات ایف آئی آرز میں لگائی گئی ہیں وہ دکھائیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ مختلف جگہوں سے ملزمان کی تحویل لی گئی ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ کسی ملزم نے تحویل کے معاملہ کوچیلنج نہیں کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ تحقیقات کے دوران تحقیقاتی ایجنسی نے کون سی دفعات کااضافہ کیا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کون سی دفعات میں چالان پیش ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 2023میں ترمیم سے قبل کون سے جرائم تھے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم کیس کی سماعت  (جمعہ)کے روز تک ملتوی کررہے ہیں۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل کا خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوشش کریں کل دلائل مکمل کر لیں۔اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میں پوری کوشش کروں گا۔