انسان کے ذہنی توازن بگڑنے کی نشانیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت اور تصور کا فرق سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے جو خیالات اس کے دماغ میں آتے ہیں ان کو شعور کی آنکھ سے فرق نہیں کر پاتا , گفتگو سے احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ حقیقی دنیا سے کٹ چکا ہے اور پاگل قرار پاتا ہے۔ میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے گزر رہا ہوں اور خواہش ہے کہ اپنی اس بیماری کی نشانیاں آپ تک پہنچاؤں تا کہ کوئی ہمدرد اس طرح کے مریض کی تشخیص کرتے کسی بہتر طبیب کی معلومات دے سکے کیونکہ اپنے اس پاگل پن کی وجہ سے میں اپنے لئے شدید مشکلات پیدا کرتا جا رہا ہوں, سمجھ لیں اپنا ہی دشمن بن چکا ہوں, خواہش ہے کہ علاج کے بعد پھر آپ جیسا ہو جاؤں اور ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ بیٹھنے کے لائق ہو سکوں۔
میرے پاگل پن کی ابتدا اس دن سے شروع ہوئی جب میں نے سیاستدانوں کو ایک مافیاز کا لقب دیا, کیونکہ مجھے یہ سیاسی پارٹیوں کے بجائے بدعنوان اور بدمعاش ڈانز کے نماہندے نظر آنے لگے جو اپنے اپنے ڈان کو ہر وقت خوش رکھنے میں مگن رہتے ہیں کہ شاید انکی نظر کرم پڑ جائے اور اپنے علاقہ کیلئے نماہندگی انہیں مل سکے, یہ پیادے ڈانز کو پیسوں کے استعمال کے ساتھ لوگوں کی تعداد ثابت کرنے کیلئے عوامی مجمع بھی لگاتے ہیں تا کہ لوٹ مار کیلئے ان کو چن لیا جائے , ڈانز کو یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ مجھ پر بھروسہ کرنے سے آپ لوٹ مار کرنے کی بہتر پوزیشن پرآ جاہیں گے, اعتماد حاصل کرنے کیلئے جیت کر کرسی انہیں تحفے میں دینے تک کا اعلان کیا جاتا ہے, ڈانز پھر مارکیٹ میں اس پیادے کی حیثیت دیکھنے کے بعد اسے اپنا نماہندہ چن لیتے ہیں , خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے, چہیتے اس انتخاب پر مبارک دینے گھر پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں, تعاون کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے , لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد اپنے ساتھ ملانے کی منصوبہ بندی تیار کی جاتی ہے اور پھر علاقائی ڈان بننے کی دوڑ شروع ہوتی ہے, علاقے کے مختلف اثر و رسوخ رکھنے والوں سے ملاقاتیں, ووٹ کیلئے ہر غلط و صحیح طرہقہ اپنایا جاتا ہے, جیت کیلئے برادری ازم کو ہوا تک دی جاتی ہے, جھوٹی یقین دہانیاں , نوکریاں دینے کے وعدے اور اپنے نیچے بنائے گے سیاسی عہدوں پر تعیناتی کے وعدے کئے جاتے ہیں جس سے اس جھوٹی شان کے دلدادہ اور ترسے ہوئے ان کے ساتھ جڑ جاتے ہیں, چرب زبانی عروج پر پہنچتی ہے اور محصوم لوگ ان پر اعتبار کرتے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں, علاقے کے ہر گھر تک پہنچنے کیلئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں جن میں گھروں میں سالوں سے فوت ہوئے کی تعزیت بھی شامل ہے, پرانے مردے اکھاڑے جاتے ہیں اور شاید یہ خواہش بھی ان نماہندوں کے دل میں ہو کہ ہر گھر میں ماتم بچھے جس سے ان کو رابطے کا بہانہ مل سکے , معاشرے میں اپنی حیثیت کے مطابق سودے بازیاں شروع ہونے لگتی ہیں کہ جتوانے پر کسے کیا ملے گا ,کون کس سیاسی عہدے پر تعینات کیا جائے گا پھر بہتر منصوبہ بندی کرنے والا جیت جاتا ہے جس کے بعد نماہندہ حسب وعدہ سیٹ تحفے میں دینے ڈان کے گھر پہنچ جاتا ہے , ڈان اس کی وفاداری سے خوش ہو کر اپنا آشیرواد دے دیتا ہے۔ ممکن ہے میرے پاگل پن کی وجہ کسی سیاستدان کی بدعا بھی ہو لیکن بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی کیونکہ میرا دہیان عوام کی حفاظت پر مامور سرکاری ملازمین کی طرف چلا جاتا ہے جو مجھے انسانی احساس اور جذبات سے عاری نظر آتے ہیں , عالم یہ ہے کہ ٹکڑوں میں بٹی لاش برآمد کرنے پر خاندان سے اظہار ہمدردی کے بجائے فوراٌ انعامات اور ٹرافیاں لینے کی رسم شروع کر دی جاتی ہے جیسے بہت بڑا محرکہ مار لیا گیا ہے اور اپنے چہیتوں کو بلا کر اسکی جی بھر کی تشہیر کرائی جاتی ہے جس سے سرکاری ملازمین کی عوام کیلئے بےحسی صاف نظر آتی ہے , اپنی عیاشیوں کے اخراجات کیلئے جگہ جگہ ناکے لگا کر لوگوں سے مال بٹورتے کا سلسلہ دہاہیوں سے جاری ہے , چھوٹے چھوٹے دوکانداروں کو جرمانے کرنے کیلئے انتظامیہ ہر وقت تیار رہتی ہے اور اگر کوئی ہنس کر اس جرمانے کو قبول کر لے تو اس مسکراہٹ پر جرمانہ دگنا کر دیا جاتا ہے , سرکاری ملازمین کی عام عوام کیلئے نفرت دیکھنے لائق ہے ماسوائے ان خاص کے جو ان کی طاقت کو قبول کر چکے ہیں اور جی حضوری سے اپنا کام نکلوا سکتے ہیں ۔ کسی بھی سانحہ پر عوام کو مطمہن رکھنے کیلئے جھوٹ بولا جاتا ہے, ہر واقعہ کو اپنی مرضی کا رخ دینے کے یہ لوگ استاد ہوتے ہیں۔
ایک مافیا ڈاکٹروں کی شکل میں بھی موجود ہے جو عوام کی نظروں سے ابھی بچا ہوا ہے جو کرپشن کے ساتھ عورتوں کا استحصال کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
یہاں سے میرا پاگل پن تھوڑی شدت اختیار کر لیتا ہے کیونکہ میں عوام کو ایسے گھٹن اور دبے ہوئے ماحول سے نکالنے بارے سوچنا شروع کر دیتا ہوں, میں عوام کو آذاد ماحول میں ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتا ہوں جہاں ان کا احترام ہو سکے جس کیلئے میں عوام سے کسی پڑھے لکھے طبقے کی مدد حاصل کرنے بارے سوچتا ہوں تو میرا دہیان وکیل برادری کی طرف چلا جاتا ہے لیکن ان کے طور اطوار سے سخت مایوس ہوتی ہے , عدالت میں حلف لے کر ہر روز جھوٹ بولنا عام ہے , وکیلوں میں مادہ پرستی کا یہ عالم ہے کہ زر کی ہوس ان میں کوٹ کوٹ کر بھر چکی ہے , جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا , ڈگری کا گھمنڈ ان کی گفتگو میں صاف نظر آتا ہے, اجتماعی برائی کا ایسا ماحول بن چکا ہے جہاں اب برائی برائی نہیں لگتی ” چوری پیشہ اور نماز فرض ” کا تصور عام ہے , سالہا سال سے غریب انصاف کیلئے دھکے کھا رہا ہے لیکن ان انصاف دلانے والوں کا پیٹ نہیں بھر سکا, ان سے عوام کیلئے ہمدردی کی توقع ہر گز نہیں کی جا سکتی۔ میرے پاگل پن کی انتہا دیکھیں کہ جن مافیاز کے خلاف بات کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں سکتا میں ان سے پنگا لئے چلا جا رہا ہوں , سیاستدان , سرکاری ملازم , ڈاکٹر اور وکیل ہماری سوساہٹی کا طاقتور ترین طبقہ ہیں, یہ سارے مل کر مجھے سخت سے سخت سبق سکھا سکتے ہیں , موقع ملنے پر یقیناٌ سکھانا بھی چاہیں گے اپنے خلاف ایسی باتیں کون برداشت کرتا ہے , اگر آپ سب مجھے سبق سکھانے بارے غور فرما رہے ہیں تو یقین جانیں میں بھی اپنے آپ کو سزا کیلئے تیار کر رہا ہوں , میں اپنی آسائش والی زندگی چھوڑنا چاہتا ہوں البتہ ایک تعریف ضرور ہے کہ ان چاروں مافیاز کے ستونوں میں چند انفرادی طور اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو جیسے بھی حالات ہوں اللہ کی رضا کیلئے حق سچ پر ڈٹے ہوئے ہیں , اس سے شاید یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ میں ابھی تک پورا پاگل نہیں ہوا۔
یہ ہے میری ذہنی کیفیت جس کے ہاتھوں میں سخت پریشان ہوں, اس سے پہلے کہ میں پاگل قرار دے کر ہسپتال میں بند ہو جاؤں میری مدد کریں, مجھے کوئی تجویز دیں کیونکہ میں دوبارہ آپ جیسا بننا چاہتا ہوں , دلیل سے بتاہیں کہ میں کہاں پر غلطی کر رہا ہوں اور اگر بدقسمتی سے آپ میری ساری باتوں سے متفق ہیں تو آپ کو مبارک ہو آپ پاگل ہو چکے ہیں۔۔
Load/Hide Comments