چیف جسٹس نے بلوچستان اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی اقلیتوں کی ترجیحی نشستوں کے حوالہ سے معاملہ الیکشن کمیشن کو فیصلے کے لئے بھجوادیا

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان نے بلوچستان اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی اقلیتوں کی ترجیحی نشستوں کے حوالہ سے معاملہ الیکشن کمیشن کو فیصلے کے لئے بھجواتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ میاں بیوی کاجھگڑا ہے ہم اس میں نہیں پڑتے، گھر کی باتیں گھرمیں رہنی چاہیں،ہم معاملہ میں نہیں پڑیں گے،درخواست گزار پیٹرک سنت مسیح جائیں اورمدعا علیہ ڈاکٹر اشوک کمار کے ساتھ بیٹھیں اور آپس میں سمجھوتہ کرلیں، قانون آپ کے خلاف ہے، کٹ آف ڈیٹ گزرگئی۔ آج کل وکیل کا م نہیں کرتے ، جج کا کام ہوتا ہے کیس بھی چلانا۔ لوگوں کی پیٹھ پیچھے باتیں نہ کریں۔ جبکہ چیف جسٹس نے ڈی جی لاء محمد ارشد کی تعریف کی کہ مختصر اوربامقصد بات کرتے ہیں اور عدالت کو بہترین معاونت فراہم کرتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)بلوچستان کی اقلیتوں کی مخصوص ترجیحی نشستوں کی فہرست میں ردوبدل کے معاملہ پر بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار پیٹرک سنت مسیح کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فریق بنایا گیا تھا۔

حافظ احسان احمد کھوکھر درخواست گزار کی جانب سے پیش ہوئے جبکہ شاہ خاورایڈوویکٹ مدعا علیہ ڈاکٹر اشوک کمار کی جانب سے پیش ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایک فہرست 23دسمبر2023اوردوسری فہرست 24دسمبر 2023کو جمع کروائی گئی ۔ حافظ احسان کھوکھر کا کہنا تھا کہ ان کے موئکل اقلیتوں کی نشست پر امیدوار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 24دسمبر کوپارٹی کے مرکزی صدرمیاں محمد شہازشریف نے فہرست الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ای میل کردی۔ چیف جسٹس کا حافظ احسان کھوکھر کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پھر کیا ہوا، ہم سپریم کورٹ ہیں ، وہ زمانے گئے جب گھنٹوں تقریریں ہوتی تھیں۔ حافظ احسان کھوکھر کا کہنا تھا کہ یہ بلوچستان اسمبلی کی سیٹ ہے، مجھے دوسرے نمبر پر کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شیڈول دکھائیں، کس نے ایڈمٹ کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اتنا ہمیں بنیادی فیکٹس کے لئے جدوجہد کرنا پڑرہی ہے، ہم کوئی مخالف تھے، آپ جاکر مخالف سے لڑ لیں یہ پارٹی کااندرونی معاملہ ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شیڈول نہیں دکھائیں گے کیونکہ وہ آپ کی حمایت میں نہیں ہوگا، الیکشن ہورہے ہیں اورآپ کو کسی چیز کی جلدی نہیں، یہ دلائل دینے کا طریقہ ہے ہمیں شیڈول نہیں دے رہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ہم الیکشن کمیشن کو بلالیتے ہیں وہ شیڈول لے کرآئیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کی سماعت ملتوی کردی۔ جب الیکشن کمیشن حکام طلب کرنے پر پہنچے توپھر دوبارہ کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ڈی جی الیکشن کمیشن محمد ارشد کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس کون سی ترجیحی لسٹ ہے جو منظور کی ہے۔

ڈی جی لاء محمد ارشد کا کہنا تھا کہ مرکزی صدر کی جانب سے فہرست دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اشوک کمار دوسرے نمبر پر ہیں ان کو سنے بغیر توفیصلہ نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ میاں بیوی کاجھگڑا ہے ہم اس میں نہیں پڑتے، گھر کی باتیں گھرمیں رہنی چاہیں،ہم معاملہ میں نہیں پڑیں گے، پیٹرک سنت مسیح جائیں بیٹھیں اور آپس میں سمجھوتہ کرلیں، قانون آپ کے خلاف ہے، کٹ آف ڈیٹ گزرگئی۔

چیف جسٹس نے پیٹرک سنت مسیح سے پوچھا کہ وہ کہاں کے رہائشی ہیں اور کیاکرتے ہیں۔ اس پر پیٹرک سنت مسیح کا کہنا تھا میں کوئٹہ کارہائشی ہوں اور محکمہ تعلیم سے سپرنٹنڈنٹ ریٹائرڈ ہوں، میں تین دفعہ (ن)لیگ اقلیتی ونگ بلوچستان کاصدر رہ چکا ہوں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بیٹھیں چائے پیئیں اور تصفیہ کر لیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اشوک کمار کہاں سے ہیں۔ اس پر  پیٹرک سنت مسیح کا کہنا تا کہ وہ کراچی سے آئے ہیں پتانہیں کوئی ڈاکٹر ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگوں کی پیٹھ پیچھے باتیں نہ کریں۔

چیف جسٹس کا کہناتھا کہ 24دسمبر2023تک الیکشن کمیشن کو فہرست جمع کروانا تھی، آج کل وکیل کا م نہیں کرتے ، جج کا کام ہوتا ہے کیس بھی چلانا۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 23دسمبر کو (ن)لیگ بلوچستان کے صدر نے فہرست دی جس کو حتمی تصور کیا گیا۔ اس دوران ڈی جی لاء نے تجویز پیش کی کہ معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوادیا جائے ہم دونوں فریقین کوسن کر فیصلہ کرلیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے پاس دائرہ اختیار نہیں تھا اوردرخواست گزار کوالیکشن کمیشن کے پاس آنا چاہیئے تھا۔ درخواست گزارنے ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لی ہے اورالیکشن کمیشن معاملہ پر فیصلہ کرے۔ ہائی کورت کی جانب سے جاری فیصلے کاکوئی قانونی اثر نہیں۔