اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پر متفق ہوتو حکومتی دعوے دھرے رہ جائیں گے، قمرزمان کائرہ


اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)کے سینئر ر ہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات چوہدری قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ اگراب بھی ساری اپوزیشن یکسوئی سے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر متفق ہو جاتی ہے تو حکومت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے،ان کو تارے نظرآجائیں گے کہ ہوتا کیا ہے۔

حکومت ساڑھے تین سال سے کہہ رہی ہے ڈیل نہیں دیں گے،بڑی ہو گئی ڈیل، ڈیل اب بتا دوکس نے مانگی ہے ۔اگر پاکستان مسلم لیگ (ن ) اور پاکستان پیپلز پارٹی اس با ت کی تردید کر رہے ہیں تو اس کے بعد کیا راستہ رہ جاتا ہے اور کس بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ ڈیل ہو رہی ہے یا ہو رہی تھی۔فواد چوہدری اگلے انتخابا ت کو چھوڑیں اور جو کے پی کے میں جو بلدیاتی انتحابات کا پہلا مرحلہ ہوا ہے اس کے حالات تو دیکھ لیں،دوسرے مرحلہ میں انہیں چاند اور تارے نظر آئیں گے اور اس کے بعد اگر ان کو پنجاب میں الیکشن کروانے کی توفیق اور ہمت ہوئی تو ان کو سمجھ آجائے گی کہ صورتحال کیا ہے۔

ان خیالات کا اظہارقمر زمان کائرہ نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر ڈیل کی بات پاکستان مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ہے تو اس کا جواب ان سے پوچھ لینا چاہیے، اگر کسی اور جماعت کی طرف سے ہے یا اگر حکومت یا حکومتی عہدادارن یا وزراء کی طرف سے یہ خبر آرہی ہے تو وہی، آئی ایس پی آر اور میڈیا کو  وہی جواب دے سکتے ہیں ،اگر پاکستان مسلم لیگ (ن )او رپاکستان پیپلز پارٹی اس با ت کی تردید کر رہے ہیں تو اس کے بعد کیا راستہ رہ جاتا ہے اور کس بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے کہ ڈیل ہو رہی ہے یا ہو رہی تھی ، اب تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی کہا ہے کہ وہی بتائے جو کہہ رہا ہے کہ کس کے ساتھ ڈیل کی ہے اور کیا ڈیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہما رے دور اور ہمارے بعد میاں نوازشریف کے دور میں جب بھی کوئی معاشی بحران ، نیشنل سیکورٹی ، دہشت گردی جیسے بڑے مسائل آئے تو فوری طور پر دونوں جماعتوں کی طرف سے اے پی سی ا جلاس بلایا جاتا تھا اور اس اجلاس کے اندر ساری سیاسی جماعتیں، سیکورٹی ایجنسیز کے ادارے بیٹھتے تھے اور بحث وتمحیث کے بعد باہمی مشاورت سے ایک متفقہ فارمولا طے کیا گیا اور اس پر عمل درآمد کے نتیجے بھی نکلے، وہ سوات آپریشن ہو ،وزیرستان آپریشن ہو ، کشمیر پالیسی اور بہت سے دیگر معاملات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب سے یہ حکومت آئی ہے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کا مقصد لڑنا ، گالی دینا اور اپوزیشن سے ہاتھ نہ ملانا ہے یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ا سکے نتیجے میں جب بھی کوئی مسئلہ آیا خواہ وہ کشمیر کا مسئلہ ہو ، اندورنی سیکورٹی کا مسئلہ ہو ،معاشی مسئلہ ہو یا کوئی بھی مسئلہ ہو حکومت  وقت نے لیڈ لینی تھی وہ نہیں لی تو ہماری ایجنسی نے لیڈ لی اور انہوں نے حکومت اور اپوزیشن بٹھا کر مشاورتی عمل کیا ، جو کام ایجنسیز کا نہیں ہے وہ ان کو نہیں کرنا چاہیئے لیکن جب حکومت نہیں کرے گی تو وہ کام کریں گے۔

قمرزمان کائرہ کا مزید کہنا تھا کہ ڈیل کے دو حصے ہو سکتے ہیں ایک ما نگنے والا ہو سکتا ہے اور دوسرا دینے والا ہو سکتا ہے ،حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم ڈیل نہیں دیں گے اور اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ ہم کوئی ڈیل مانگ نہیں رہے اور سیکورٹی ایجنسیز نے دوسری ، تیسری دفعہ کہا کہ ہم کسی ڈیل کا حصہ نہیں ہیں ہمارا یہ کام نہیں ہے،یہ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ بتا دے کہ وہ کون سافردتھا جس نے کس فرد سے وزیر اعظم سے، کسی وزیر سے کسی میٹنگ میں ،یہ ساڑھے تین سال سے ایک مسلسل ترانہ ہے جو یہ گائے جارہے ہیں ،ایک الف لیلی ہے جو یہ بیان کئے جارہے ہیں ۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ نام قوم کے سامنے رکھے جس نام نے آپ سے کسی جگہ پر ، کسی میٹنگ میں کوئی بات کہی ہے کہ ہمیں  ڈیل دیں، یا ہمیں  یہ رعایت دیں،اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کسی اورجگہ ڈیل مانگی جارہی ہے تو سیکورٹی ایجنسیز کہہ رہی ہیںکہ ایسا کچھ نہیں ہے، اصل میں ہے کیا، ہے یہ کہ اس حکومت نے عملاً کام تو کوئی نہیں کرنااور یہاں تک ان کا بینر ہیڈلائن پروگرام احتساب تھا اس میں بھی یہ پٹ گئے، ملک کا معاشی نظام برباد کر دیا اور احتساب میں بھی کسی حکمران  یا سیاستدان سے ایک پائی نہیں لی۔

جوکسی دوسرے پر الزام لگاتا ہے اس سے پوچھیں کہ اس کا ثبوت کیا ہے۔حکومت ساڑھے تین سال سے کہہ رہی ہے ڈیل نہیں دیں گے،ڈیل نہیں دیں گے، ڈیل نہیں گے،بڑی ہو گئی نا ڈیل، ڈیل اب بتا دوکس نے مانگی ہے ۔حکومت کے خلاف تحریک اعتماد ہم کافی عرصہ سے چاہ رہے تھے اور اس حوالے سے سارے اپوزیشن جماعتیں متفق  ہو رہی ہیں لیکن اختلاف رائے تھا کہ کب اور کس وقت ہونی چاہئے ۔منی بجٹ پاس ہونے کے وقت حکومت کے لوگ بھی کم تھے، کیا ہم انہیں اٹھا کر لے گئے تھے، شیخ رشید احمد اس حوالہ سے بتا دیتے، اگر قانون سازی میں اپوزیشن کے لوگ کم ہوئے توحکومت کے بھی کم ہوئے۔