گھوٹکی سے نکلنے والوں کا احتساب مہنگائی کے ستائے عوام کریں گے، سعید غنی


کراچی (صباح نیوز) وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کراچی کے عوا م نے دو روز قبل بھان متی کے قبیلہ کے لوگوں کے مظاہرے کو مسترد کردیا اور ثابت کردیا کہ وہ حقیقی عوام کے مسائل سے توجہ ہٹانے والوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس وقت قوم کا مسئلہ مہنگائی، بیروزگاری،گیس کا بحران اور بجلی، ادویات اور دیگر روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے اس کا مسئلہ لوکل گورنمنٹ کا قانون نہیں ہے۔ سندھ میں اگر ایک شخص کو کتا کاٹ جائے تو اس کا الزام چیئرمین بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ پر عائد کیا جاتا ہے اور مری میں 23 افراد حکومتی نااہلی کے باعث جاں بحق ہوگئے اور اس کی ذمہ داری کسی پر عائد نہیں کی گئی۔ عمرانی نیازی سرکس کے جوکر اور چول وزیروں کے سردار نے جو بے تکی باتیں کی ہیں وہ صرف اپنی ہی جماعت کے انفارمیشن سیکرٹری احمد جواد کے سوالوں کے ہی جوابات دے دیں۔ اب اس شہر اور صوبے میں لسانیت کا چورن بیچنے والوں کا چورن بکنے والا نہیں ہے۔ عمران خان نے خود ہی اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ اس وقت ملک میں مافیاز کا راز ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ چینی مافیا، کھاد مافیا، ایل این جی مافیا، ادویات مافیا ان کے اپنے ہی اے ٹی ایمز ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نےسندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر رکن سندھ اسمبلی لال چند اکرانی اور پیپلز پارٹی کے نجمی عالم بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ پرسوں بھان متی نے مظاہرہ کیا، اس مظاہرے میں چند سو یا ایک ہزارکے قریب لوگ تھے، اس مظاہرے میں مختلف سیاسی جماعتوں کا جھنڈوں کامقابلہ تھا جبکہ کچھ ایسی ویڈیوز بھی سامنے آگئی ہیں کہ جس میں مظاہرین نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم سے جھوٹے وعدے کرکے یہاں لایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں وسیم اختر پر کرپشن کے سنگین الزامات لگانیوالے مظاہرے میں شریک تھے اور دہشتگردوں اور قاتلوں کیساتھ کھڑے ہوکر تقریر کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ان بھان متی کے کنبہ نے حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے اس طرح کی ڈرامہ بازیاں شروع کی ہیں اور لوکل گورنمنٹ بل کو جواز بنا کر اس شہر اور صوبے کے عوام کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ حقیقی  عوام مسائل سے توجہ ہٹانے میں مصروف ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر سندھ میں کسی کو کتا بھی کاٹ جائے تو وہ اس کا ذمہ دار بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ اور پیپلز پارٹی کو ٹھہراتے ہیں جبکہ مری میں 20 بیس گھنٹوں تک کس تکلیف اور قرب میں گزار کر جاں بحق ہونے والے 23 افراد کے ذمہ دار صرف انتظامیہ کو ٹھہرا یا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مری میں 30 لوگوں کے قتل پر کسی کو شرم نہیں آئی کہ استعفی دیتے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم کہتی ہے کہ دیہی سندھ کا شہری سندھ پر قبضہ نامنظور ہے، میں جی ڈی اے اور پی ٹی آئی  والوں کو کہتا ہوں کہ وہ ایم کیوایم سے سوال کریں کہ غیر مقامی افراد کون ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس اسٹیٹ بینک کو گروی رکھنے  اور عوام پر 350 ارب روپے کا منی بجٹ کے نام پر بوجھ ڈالنے سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے دور کے 10 سالوں کے دوران قرضہ 25 ارب ڈلار کا قرضہ تھا، جو اس نااہل اور نالائق حکومت کے 3 سالوں میں 45 ارب کا ہوچکا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ کیا کل شارع فیصل پر جو مظاہرہ ہوا پیٹرول، بجلی، گیس کی قیمتیں بڑھنے کے خلاف تھا یا پھر اس سے توجہ ہٹانے کیلیے کیا گیا تھا۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت مظاہرہ کرنے والی جماعتوں کو کنٹونمنٹ بورڈ اور این اے249میں جس طرح ذلت آمیز شکست ہوئی  انہیں امید ہوچکی ہے کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں اس سے زیادہ ذلت ہوگی اور یہی خوف ان کو سڑکوں پر احتجاج کے لئے لے آیا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے مالی، انتظامی اور سیاسی طور پر بلدیاتی اداروں کو بااختیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ترامیم گورنر سندھ کی جانب سے ان تمام اپوزیشن جماعتوں کی رائے سے دی تھی ان میں سے زیادہ تر کو اس میں شامل کرلیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ایک ایم پی اے والی جماعت 100 ایم پی ایز والی پارٹی کو کہہ رہی ہے کہ ہمارا قانون بناؤ، جبکہ آئین اور قانون کہتا ہے کہ اکثریت والی جماعت کو قانون بنانے کا اختیار ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جو ساری جماعتیں مل کر ایک ہزار آدمی جمع نہ کرسکے وہ گھوٹکی سے لانگ مارچ کی بات کررہے ہیں وہ شوق سے اپنا یہ خواب پورا کریں جب وہ گھوٹکی سے نکلیں گے تو گیس کے بحران اور مہنگائی کے ستائے عوام خود ان کا احتساب کریں گے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے درست کہاکہ ملک پر مافیاز کا قبضہ ہے، کیونکہ مافیاز کے سرپرست عمران خان ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جو تاجر ان کے لئے بھتہ جمع کرتے تھے وہ آج کہتے ہیں بلدیاتی قانون کو نہیں مانتے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان کی آمدن میں دو سو فیصد اضافے کے الزام کے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ میری آمدنی بتاسکتا ہوں کسی اور ایم پی اے کی آمدنی کا نہیں بتاسکتا۔البتہ وزیراعظم کی آمدنی میں 5 ہزار 8 سو فیصد اضافہ ہوا ہے، ایف بی آر کے پاس اختیار ہوتا ہے،میرا خیال ہے ایف بی آر وزیراعظم سمیت ان لوگوں کی آمدنی کا آڈٹ کریں۔ کورونا کیسز کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کیسز کی تعداد بڑھی ہے مگر اسپتالوں پر دباؤ کم ہے،احتیاطی تدابیر اختیار کرکے لاک ڈاون یا سخت اقدامات سے بچ سکتے ہیں۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی نیا قانون نہیں بنایا 2013 کے قانون میں چند ترامیم کی ہیں اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا ہے۔ مصطفی کمال کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ ان کی نمائندگی اسمبلی میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ یوسی جیت سکیں، اس پر انہیں برا لگ گیا۔ انہوں نے کہا کہ جو بات مصطفیٰ کمال کہہ رہے ہیں، تو وہ خود اس بات کا جواب دیں کہ جب بیرونی طاقتوں کے کہنے پر نوجوان استعمال ہورہے تھے مصطفی کمال ان کیساتھ تھے یا نہیں، کیا ۔انہوں نے خود اس بات کا اقرار نہیں کیا کہ وہ جس جماعت کے سٹی ناظم تھے اس جماعت میں را کے ایجنٹوں کو استعمال کیا جاتا تھا اور جس وقت یہ ہورہا تھا خود وہ اس کا حصہ نہیں تھے۔ جماعت اسلامی کے دھرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ آج کل احتجاج کا موسم چلا ہوا ہے، ہماری بات چیت ہورہی ہے لیکن ان کے جو مطالبات ہیں وہ ایسے نہیں کہ انہیں قانون بنایا جاسکے اب وہ خود اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورننگ چاہتے ہیں تو اس میں حکومت کیا کرسکتی ہے۔