نیویارک (صباح نیوز)پاکستان نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے طاقت کے اندھا دھند استعمال کی مذمت کا اعادہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے مرکزی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور مظالم کی تحقیقات اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لئے خصوصی ٹریبونل قائم کرنے سمیت ممکنہ اقدامات پر غور کریں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے قائم مقام مستقل مندوب محمد عثمان اقبال جدون نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین پرسالانہ مباحثے کے دوران خطاب کرتے ہوئے جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کو یہ تجویز بھی پیش کی کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے ایک بین الاقوامی حفاظتی فورس قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ لیں۔
جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس نے سالانہ مباحثے کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا سوال 76 سال سے اسمبلی کے ایجنڈے پر موجود ہے جس میں تشدد کے شیطانی چکر کو ختم کرنے کے لیے متعدد قراردادیں منظور اور دستاویزات تیار کی گئی ہیں۔اپنے ریمارکس میں پاکستانی نمائندہ نے واضح طور پر اسرائیل کی طرف سے شہریوں، شہری اشیا اور انفراسٹرکچر پر طاقت کے اندھا دھند استعمال اور خوراک اور پانی کی بندش کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب نسل کشی کے مترادف ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مکمل استثنی کے ساتھ کام کرنے والے ملک اسرائیل کی طرف سے قتل عام کو روکنے کی ضرورت ہے اور اسرائیل کو مجرمانہ اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے غزہ کے محصور عوام کی تکالیف پر دکھ کا اظہار کیا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کی اپنے دفاع میں غزہ پر مسلسل بمباری کو مسترد کرتا ہے،
انہوں نے کہا کہ بحران کی بنیادی وجہ اسرائیل کا طویل قبضہ اور فلسطینیوں کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت سے انکار ہے ۔پاکستانی مندوب نے اس امید کا اظہار کیا کہ 11 نومبر کو سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہونے والا مشترکہ عرب اسلامی غیر معمولی سربراہی اجلاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اسرائیلی قتل عام کو روکنے ،پائیدار سیزفائزاور امن عمل کی بحالی کے لئے اقدامات کا محرک ثابت ہوگا۔ دریں اثنا انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو اس ہنگامی خصوصی اجلاس کے دوران جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کردہ قرارداد کی شقوں کی تعمیل کرنی چاہیے جس میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں فوجی کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پاکستانی نمائندہ نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل درج ذیل اقدامات پر غور کریں جن میں اسرائیل کے مظالم کے جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل اور احتساب کے طریقہ کار کا قیام، جنگی جرائم کے ارتکاب کے ذمہ داروں کی نشاندہی اور ان کے خلاف قانونی کارروائی اور نقصانات کا ازالہ کرنا، غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کو قابض افواج اور انتہا پسند نوآبادیاتی آباد کاروں کے مزید حملوں اور جبر سے بچانے کے لیے بین الاقوامی حفاظتی فورس کا قیام یا اس حوالہ سے میکانزم کی تشکیل ، مشرق وسطی امن عمل کو بحال کرنا اور اسے تقویت دیناشامل ہے۔اس میں مشرق وسطی کے معاملے کے چار فریقوں کی طرف سے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی سرپرستی میں اپنی کوششیں دوبارہ شروع کرنا بھی شامل ہے جن میں او آئی سی اور چین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہیتاکہ دو ریاستی حل پر مبنی ایک پائیدار حل تلاش کیا جا سکے جس کی بنیاد پر فلسطین جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل ایک محفوظ، قابل عمل اور خود مختار ریاست بن سکے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔پاکستانی سفیر نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ پاکستان بحالی امن عمل کے آغاز کے لیے بین الاقوامی کانفرنس بلانے اور فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کرنے کی حمایت کرے گا۔