اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ درخواست کی استدعا میں جوپوائنٹ نہیں لیا گیا اس حوالہ سے ہم دلائل دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہمیں ڈرافنٹنگ کلاسزشروع کرنی چاہیں۔ اگر اسلام آباد میں کسی رہائشی جگہ کی مالیت پانچ کروڑ روپے ہے تواس کے مقابلہ میں کمرشل جگہ کی مالیت ایک ارب روپے تک ہو گی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے صوبہ پنجاب کی جانب سے ڈسٹرکٹ کلیکٹر خانیوال اوردیگر کے توسط سے چوہدری شوکت حیات خان، انوار احمد، افتخاراحمد، راجہ انصر تاج، مرحوم نومحمد بوساطت قانونی لواحقین، محمد ظفر اقبال اوردیگر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر مختلف نوعیت کی درخواستوں پر سماعت کی۔ حکومت پنجاب کی جانب سڑک کی تعمیر کے لئے لازمی حصول کے قانون کے تحت62,500فی مرلہ کے حساب سے زمین حاصل کی۔ مدعا علیحان کی جانب سے حکومت کے اس اقدام کو چیلنج کیا گیا۔ ریفری جج نے زمین کی قیمت بڑھا کر 3لاکھ روپے فی مرلہ کر دی جسے ہائی کورٹ نے برقراررکھا۔
ہائی کورٹ کے فیصلے خلاف پنجاب حکومت نے اپیل دائر کی تھی۔ دوران سماعت حکومت پنجاب کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے محمد احسن یونس بطوروکیل پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرکاری وکیل نے فیکٹس پر دلائل دینے ہیں یہ زرعی زمین ہے اورکمرشل زمین نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان نے یہ ثابت کیا ہے کہ کمرشل جگہ ہے۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہ ہائی کورٹ مختلف فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر کی گئی ہیں جو ایک ہی نوعیت کی ہیں۔ اپیلیں 21دسمبر2022کو دائر کی گئی تھیں۔ سڑک کی تعمیر کے لئے62500روپے فی مرلہ کے حساب سے زمین حاصل کی گئی تھی جو کہ ریفری جج نے بڑھا کر 3لاکھ روپے فی مرلہ کردی اور ہائی کورٹ نے فیصلے کو برقراررکھا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ یہ زرعی نہیں بلکہ کمرشل زمین تھی اور درست طور پر اس کی قیت بڑھائی گئی۔ عدالت نے قراردیا کہ درخواست گزارنے زمین کی کمرشل مالیت کے حوالہ سے کوئی نکتہ نہیں اٹھایا۔چیف جسٹس نے اپیلیںخارج کرتے ہوئے قراردیا کہ وہ کیس کے اخراجات کے حوالہ سے درخواست گزار کو کوئی جرمانہ عائد نہیں کررہے۔