اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ برطانیہ میں کوئی بھی شخص کیس دائر کرنے سے قبل 100مرتبہ سوچتا ہے کہ اگر وہ جھوٹا ثابت ہو اتوجرمانہ کتنالگے گا۔ گزشتہ جمعہ کے روز ہم نے 10لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا، وکیل سوچ کردلائل دیں۔بے بنیاد مقدمہ بازی کو ہم نے ختم کرنا ہے، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اصل کیس کون سا ہے اور بے بنیاد کیس کون ساہے۔
وکیل لفاظی نہ کریں، ہم واقعات پر چلتے ہیں، وکالت کو اتفاقیہ نہیں لیتے بلکہ وکیل کا ہر لفظ ہیرے کی طرح ہوتا ہے ہم کوئی جرگہ نہیں بیٹھے ہوئے بلکہ ہم قانون کی عدالت ہیں۔ وکیل ہماری ہربات کی نفی کرتے ہیں اور ہمیں جملہ بھی مکمل نہیں کرنے دیتے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے امتیاز احمد کی جانب سے مسمات پروین عارف اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کی جانب سے طاہر محمود عباسی بطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کے وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ اکثر بیوائوں کے ساتھ ہوتا ہے، سوچ سمجھ کر دلائل دیں ، دوروز قبل 10لاکھ روپے جرمانہ ہوچکا ہے۔ درخواست گزار نے بتایا کہ سالے اور بہنوئی کا کیس ہے۔یہ سن کر جسٹس اطہر من اللہ مسکرادیئے۔ بعدازاں واپس لینے بنیاد پر عدالت نے درخواست خارج کردی۔
جبکہ بینچ نے ضلع مالاکنڈ سے تعلق رکھے والے رہائشیوں حاجی گل شاہ اوردیگر کی جانب سے رضا خان اور دیگر کے خلاف زمین کے تنازعہ کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت وکیل درخواست گزار کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے موئکل کی جانب سے 3ستمبر 2011کو دعویٰ دائر کیا گیا ۔وکیل کا کہنا تھا کہ مقامی زبان میں 100دری زمین کا دعویٰ کیا گیا ہے جو کہ 73کنال بنتی ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قانون کا حوالہ دیں، کتابیں چھپتی ہیں، ہر چیز لکھی جاتی ہے، کسٹمری لاء کے حوالہ سے کتابیں چھپی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھاخصوصی قانون کے تحت ٹربیونل نے رٹ خارج کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لفاظی نہ کریں، ہم واقعات پر چلتے ہیں، وکالت کو اتفاقیہ نہیں لیتے بلکہ وکیل کا ہر لفظ ہیرے کی طرح ہوتا ہے ہم کوئی جرگہ نہیں بیٹھے ہوئے بلکہ ہم قانون کی عدالت ہیں۔ وکیل ہماری ہربات کی نفی کرتے ہیں اور ہمیں جملہ بھی مکمل نہیںکرنے دیتے۔ جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ ٹرانزیکشن کی تاریخ کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بس رواج تھا، وکیل نے کہہ دیا نہیں اور سپریم کورٹ نے فیصلہ کردیا، اگر تھوڑی سی زحمت کریں تو کتاب کھول لیں جس پر رواج لکھا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرا تعلق چونکہ بلوچستان سے ہے تو اس لئے مجھے قبائلی قانون کے حوالہ سے پتا ہے ہر قبیلے کا اپنا قانون ہوتا ہے، بلوچستان میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ بگٹی قبیلے کا رواج ہے اور میسوری قیبلے کا رواج ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے رواج ثابت کریں، یہ بھی دکھائیں کہ پری ایمپشن فلاں، فلاں قیبلے میں رواج ہے۔ چیف جسٹس کاسماعت کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ دوران سماعت متعدد سوالات کئے گئے جن کا جواب نہیں دیا گیا، 1901کے ایف سی آر میں کہاں رواج کی تعریف دی گئی ہے یا کہ پری ایمپشن رواج ہے۔ عدالت نے فریقین کو متعلقہ تحریری طور پرعدالتی فیصلوں اورقانون کی شقوں کا حوالہ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی۔ ZS