مقبوضہ بیت المقدس(صباح نیوز)فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے حریت پسندوں کے ہاتھوں بیسیوں اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کی گرفتاری جیسے واقعات صہیونی ریاست کے عوام کے جذبات کو ملک کی حالیہ تاریخ میں کسی بھی بحران سے زیادہ شدت کے ساتھ سامنے لائے ہیں جس سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن ایک شدید مخمصے سے دوچار ہو گئے ہیں۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سال 2006 میں راسخ العقیدہ فلسطینیوں کی تنظیم حماس کی جانب سے گیلاد شالیت ،ایک واحد نوجوان اسرائیلی فوجی کو قبضے میں لینے سے شروع ہونے والے بحران نے اسرائیلی معاشرے کو برسوں تک شدید بحران کا شکار کئے رکھا- یہ ایک قومی جنون میں بدل گیا جس نے اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر شدید بمباری کرنے پر اکسایا اور بالآخر اسے شالیت کی حماس کی قید سے آزادی کے بدلے میں 1,000 سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہونا پڑا جن میں سے کئی ہلاکت حملوں کے الزام میں پابند سلاسل تھے۔اس بار، غزہ پر حکومت کرنے والی حماس کے کارکنوں نے ہفتے کے روز ایک کثیر الجہتی حملے کے ایک حصے کے طور پر بیسیوں اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔
اس مشترکہ کارروائی میں شامل فلسطینی اسلامی جہاد نے اتوار کو دعوی کیا کہ صرف اس کے پاس 30 اسرائیلی قید میں ہیں۔قیدیوں کے اس غیر معمولی بحران نے نیتن یاہو حکومت اور اس کے جنونی انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں پر کے غم و غصہ میں شدید اضافہ کر دیا ہے، جو پہلے ہی حماس کے حملے میں 700 سے زیادہ اسرائیلیوں کی ہلاکت کا جواب دینے کے لیے شدید دباو میں ہیں۔ ان حالات میں نیتن یاہو حکومت پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے کہ اسرائیلی فوج حماس پر پوری طاقت سے حملہ کرے۔ اس صورحال کے نتیجے میں غزہ میں نامعلوم مقامات پر مقید اسرائیلی شہریوں کی رہائی کی خاطر جنگ کے ممکنہ پھیلا نے گنجان آباد غزہ کی پٹی میں رہائش پذیر لاکھوں فلسطینی عوام کی زندگی کو لاحق خدشات کو جنم دیا ہے۔پچھلے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو غزہ کی ایک چھوٹی سی پٹی میں جو تین اطراف سے اسرائیل میں گھری ہوئی ہے میں اسرائیلی یرغمالیوں کا پتہ لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ماضی میں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیاں شالیت کی تلاش اور رہائی کے معاملے میں بری طرح ناکام رہیں تھی اب نہیں مزید ہمہ جہت اور بڑے چیلنجوں کا
سامنا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ غزہ کا علاقہ چھوٹا ہے، اور اس کی مسلسل فضائی اور دیگر ذرائع استعمال کر کے نگرانی کی جاتی ہے اور اسے اسرائیلی زمینی اور بحری افواج نے گھیر ہوا ہے، تاہم اس سب کے باوجود اسرائیلی دارلخلافہ سے تل ابیب سے محض ایک گھنٹہ کی مسافت پر موجود اس علاقے میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کے جیسے پر جلتے تھے۔نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے سابق مشیر یاکوف امیڈور نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اسرائیلیوں کو کہاں پناہ دی گئی ہے لیکن مقید اسرائیلیوں کا یہ سارا مسئلہ اسرائیل کو غزہ پر بمباری جیسے مواقع محدود کر دے گا کیوں کی یہ سارا معاملہ پیچیدگی کا شکار ہو گیا ہے۔
حماس پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ اسرائیلی جیلوں میں قید تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا خواہاں ہے- فلسطینیوں کے لیے اسرائیل میں قید ان کے ہم وطنوں سے تعلق شاید اتنا ہی جذباتی ہے جتنا کہ اسرائیلیوں کا اپنے قیدیوں سے ہو۔واضح رہے کہ 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں اسرائیل کے مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کے بعد سے تقریبا 750,000 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید رہ چکے ہیں، زیادہ تر فلسطینیوں نے یا تو اسرائیلی جیلوں میں وقت گزارا ہے یا وہ کسی کو ایسے قیدی کے خاندان کو جانتے ہیں۔ اسرائیل انہیں دہشت گرد کے طور پر دیکھتا ہے لیکن فلسطینی علاقوں میں ان قیدیوں کو ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم خود مختار حکومت اپنے سالانہ بجٹ کا تقریبا 8 فیصد حصہ ان فلسطینی قیدیوں اور ان کے خاندانوں کی کفالت کے لیے وقف کرتی ہے۔حالیہ بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے فلسطینی سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کے ڈائریکٹر خلیل شکاکی نے کہا کہ کسی بھی فلسطینی قیدی کی رہائی حماس کے لیے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اس سے فلسطینیوں کی نظر میں حماس کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی۔لیکن نیتن یاہو کی حکومت اور اس کے طاقتور انتہائی دائیں بازو کے مذہبی وزرا کے بشمول مغربی کنارے کے صہیونی آباد کاروں نے کسی بھی فلسطیی قیدیوں کی رہائی جیسے اشاروں کی سختی سے مخالفت کی ہے جسے وہ فلسطینیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات گیل تالشیر نے کہا کہ اس بات کا بالکل کوئی امکان نہیں کہ موجودہ حکومت فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر رضامند ہو جائے۔تجربہ کار اسرائیلی سیاسی مبصر ایہود یاری نے کہا کہ یہ ایک سنگین مخمصہ ہے۔ خوف یہ ہے کہ جب زمینی آپریشن شروع ہوتا ہے، تو حماس ہر گھنٹے، ہر دو گھنٹے میں یرغمالیوں کو ہلاک کرنے کی دھمکی دے گی، اور اس سے وقعی ہی بحران مزید شدید ہون جائے گا۔”اسرائیل کی ہنگامہ خیز تاریخ میں یرغمالیوں کے معاملے میں رائے عامہ کی انتہائی حساسیت عیاں رہی ہے- اور اس لیے ایک ایسے ملک میں جبری بھرتی کیلئے 18 سال کے بچوں کو فوجی خدمات کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ادھر حماس کے حملے کے بعد لاپتہ ہونے والے اسرائیلیوں کے اہل خانہ نے ایک نیوز کانفرنس کی جسے پرائم ٹائم کے دوران براہ راست نشر کیا گیا۔ان غمگین رشتہ دارحکومت سے مطالبہ کیا کہ مغویوں کو فوری گھر واپس لایا جائے۔ماضی میں، اسرائیلی معاشرے کی اپنے شہریوں کو اسیر ہونے کو برداشت کرنے میں ناکامی نے بڑے پیمانے پر عوامی دبا کا شکار کیا تھا، جس سے کئی حکومتوں کو قیدیوں کے تبادلوں پر راضی ہونے پر آمادہ ہونا پڑا۔ اس میں 2011 میں شالیت ڈیل اور 1985 میں اسرائیل کی طرف سے تین اسرائیلی قیدیوں کے بدلے جیل میں 1,150 فلسطینیوں قیدیوں کی رہائی شامل تھی۔اگرچہ عسکری تجزیہ کار اس بات پر منقسم رہے کہ نیتن یاہو قیدیوں کے بحران کی شکل میں اپنی سیاسی زندگی کے سب سے بڑے مخمصے سے کیسے نکلیں گے، لیکن اس کا مشکل جواب ان اسرائیلیوں کے لیے دردناک طور پر واضح تھا اور وہ حکومت سے ہر قسم کے اقدام اٹھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔