اسلام آباد (صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کی ذیلی کمیٹی نے سرکاری نرسوں کی نجی ملازمتوں اور اپنے ادارے کھولنے کا نوٹس لیتے ہوئے اس بارے میں وزارت سے قانون کی روشنی میں رپورٹ طلب کرلی، کمیٹی نے اسے مفادات کے ٹکراؤ کے اصول کے خلاف قراردیا ہے کمیٹی نے نرسنگ داخلوں کے لئے بھی انٹری ٹیسٹ کی سفارش کردی ہے ۔ کمیٹی کا اجلاس روبینہ خالد کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ نرسنگ اداروں سے متعلق تشویش اور خدشات کا جائزہ لیا گیا۔
سینیٹر روبینہ خالد نے نرسوں کے غیر مناسب طرزعمل پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس مسئلہ کے باعث معصوم جانوں کا المناک نقصان ہوا ہے۔ انھوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ۔کمیٹی کی جانب سے نرسنگ کے اداروں کے اندر سخت چیک اینڈ بیلنس نافذ کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے ۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے صدر اور وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ باقاعدگی سے معائنہ کر رہے ہیں۔ سینیٹر روبینہ خالد نے ہدایت کی پی این سی کی جانب سے بند پانچ اداروں کی تفصیلات اور زمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان میں کراچی انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ، ایشین کالج آف نرسنگ، جامعہ کالج آف نرسنگ، ڈاکٹر روتھ کالج آف نرسنگ، اور نسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ شکارپور شامل ہیں ۔انہوں نے ہدایت کی کہ بند نرسنگ اداروں کے معاملے کو ایف آئی اے کے حوالے کیا جائے۔نااہلی اور خرابی کے اندرونی مسائل پر اظہار افسوس کیا گیا۔ وزارت کو مسئلے کی بنیادی وجہ کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔سینیٹر جام مہتاب حسین ڈہر نے بھی پاکستان میں نرسنگ انسٹی ٹیوٹ کی نا اہلی پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ان اداروں کی جانب سے جعلی ڈگریاں تیار کرنے کا دعوی کیا اور کہا کہ نااہل نرسیں پہلے سے ہی صحت کی دیکھ بھال کے کمزور نظام میں چیلنجوں کو بڑھاتی ہیں۔
انہوں نے نرسنگ اداروں کے لیے اہلیت کے معیار کے طور پر استعمال ہونے والے مضامین کی مطابقت پر بھی سوال اٹھایا، اسے نرسوں کی اہلیت کے لیے نامناسب قراردید یا ۔ سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج روغانی نے متعدد کمیٹیوں کے اجلاسوں کے باوجود خاطر خواہ پیش رفت کے فقدان پر اظہار تشویش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ نرسنگ کے بگڑتے نظام کے ذمہ داروں کو سخت نتائج کا سامنا کرنا چاہیے۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت صحت کو ان چیلنجز سے نمٹنے کا آخری موقع دیا گیا ہے ۔ چیئرپرسن نرسنگ کے لیے انٹری ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کی تجویز پیش کردی۔ انہوں نے زور دیا کہ نرسنگ جیسے اداروں کے معیار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ نرسوں کو لائسنس دینے کے طریقہ کار متعلقہ افراد کے لائسنس اور انسپکشن کے حوالے سے تفصیلی معلومات طلب کرلیں ۔ انہوں نے اس بات کی بھی انکوائری کرنے کی ہدایت کی کہ کیا مرکزی یا صوبائی حکومت کے سرکاری ملازمین اپنے پرائمری عہدوں سے چھٹی لینے کے بعد دوسری پرائیویٹ ملازمتوں میں جاسکتے ہیں یا ذاتی ادارے کھول سکتے ہیں، اور کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے۔