اصل نگران لمبی نگرانی کے لیے نگران لانا چاہتے ہیں: حافظ حسین احمد

کوئٹہ(صباح نیوز)جمعیت علما اسلام پاکستان کے سینئر رہنما اور ممتاز پارلیمنٹرین حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ماضی میں نائن زیرو بھی ایک عرصے تک مسئلہ بنا رہا اور 90کا ہندسہ کبھی پورا نہیں ہوا ہے ماضی میں طے شدہ 90دن کبھی 90دن نہیں رہے بلکہ 90دن لامحدود انداز اختیار کرتے رہے ہیں۔ وہ  اپنی رہائشگاہ جامعہ مطلع العلوم میں چاغی اور مستونگ کے وفود سے ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کررہے تھے۔

اس موقع پر حافظ منیر احمدایڈوکیٹ، حافظ زبیر احمد، حافظ محمود احمد، ظفر حسین بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم ضیا الحق کے 90دن گیارہ سال پر محیط ہوئے پنجاب اور کے پی کے اسمبلی کو توڑنے کے بعد 90دن کی آئینی مدت بھی چار2 کے فیصلے کی گرداب میں اب تک 90دن پورے نہیں ہوسکے لگتا ایسا ہے کہ اصل نگران لمبی نگرانی کے لیے نگران لائیں گے اور اسحق ڈار کی خود ساختہ نامزدگی اسی جانب ایک قدم ہے۔ ڈار کا نام لیکر کسی اور کو اسی منصب پر لانے کا پروگرام ہے لیکن یہاں بھی زرداری سب پر بھاری ثابت ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اگر عدالت سے ریلیف مل جائے تو نگرانی کے منصب کے لیے میاں نواز شریف سب سے بہترین انتخاب ہوگا اور اس سے میاں محمد نواز شریف کی چار سال کے بعد وطن واپسی بھی ممکن ہوسکے گی۔

اگر نگران سے ن کو نکال دیا جائے پھر معاملہ گراں لگتا ہے۔اس کے بعد نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پہلے خیال تھا کہ انتخابات کا کھیل ون ڈے ہوگا بعد میں پتہ چلا کہ نہیں یہ تو ٹیسٹ سیریز ہے۔ لیکن اب سیاسی موسم کی تبدیلی اور سیاسی بارش کے بعد باقی سیاسی کھیل روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا اختیار دینے کے بجائے الیکشن کا سال دینے کا اختیار دیا جائے اور لگتا ایسے ہے کہ ماضی کی طرح الیکشن کمیشن ان کو مایوس نہیں کرے گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ووٹ کے ذریعے جمہوری حکومت آتی ہے جبکہ فوجی اور قومی حکومت نامزدگی اور قوانین میں ترمیم کے بل بوتے پر لائی جاتی ہے۔ سیاسی موسم اور سیاسی سیلاب کے بعد حقیقی سیلاب کے خدشات بڑھ گئے ہیں اب تو مردوزن شماری کا مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجودہ ترامیم بھی اس طرف اشارہ کررہی ہیں کہ ہنوز دلی دور است۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ نظام انتخابات کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام کو بھی پارلیمانی نظام کے بجائے کوئی لباس پہنایا جاسکتا ہے۔