امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کا سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مخلوط محافل اور تقریبات کی خبروں پر اظہار تشویش

پشاور(صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مخلوط محافل اور تقریبات کی خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری سرپرستی میں کالجوں اور سکولوں میں مردوزن کے مخلوط پروگرامات اسلامی معاشرت، روایات اور پشتون ثقافت کے خلاف ہیں۔ اس قسم کے مخلوط پروگرامات سے پشتون معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے کسی بھی ضلع میں ضلعی افسران کی جانب سے زنانہ اور مردانہ سکولوں کے طلبا و طالبات اور مردو خواتین اساتذہ کے اختلاط، مقابلوں اور مکالموں کی حوصلہ افزائی افسوسناک ہے۔ حکومت ایسی خبروں کا نوٹس لے اور مخلوط پروگرامات کی حوصلہ شکنی کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے المرکزالاسلامی پشاور سے جاری کیے گئے بیان میں کیا۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ دینِ اسلام مردو زن کے اختلاط کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، مغربی این جی اوز کی کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان اور اس کے تعلیمی اداروں سے اسلام کو بے دخل کردیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یہ این جی اوز بڑے بڑے فنڈز خرچ کرتی ہیں، خیبرپختونخوا کے سکولوں اور کالجوں میں مخلوط سرگرمیوں کے پیچھے بھی انہی این جی اوز کے ہاتھ کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، لیکن مخلوط تعلیمی یا دیگر سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے۔ والدین سے بھی گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو مخلوط پروگرامات میں جانے سے روکیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے طلبا و طالبات کی دینی تربیت کا اہتمام کریں۔ پاکستان کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ بچوں اور بچیوں کو اسلام کے پاکیزہ ماحول، نظام اور معاشرت سے متعلق آگاہی دیں،انہوں نے حکومت، ہر سطح کے ضلعی افسران اور انتظامیہ سے بھی مطالبہ کیا کہ غیر اسلامی اور مخلوط ماحول اور پروگرامات کی سرپرستی نہ کریں۔