مقبوضہ کشمیر کی تمام بڑی جماعتوں نے بھارتی حد بندی کمیشن کی رپورٹ مسترد کر دی


سری نگر: پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ، نیشنل کانفرنس، ، سمیت مقبوضہ کشمیر کی تمام بڑی جماعتوں نے بھارتی حد بندی کمیشن کی رپورٹ مسترد کر دی ہے ۔

نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی ، پیپلز کانفرنس اور جموں وکشمیر اپنی پارٹی نے ان ڈرافٹ تجاویز  کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔رپورٹ کے تحت مقبوضہ کشمیر کی نئی اسمبلی کی کل نشستیں 114  ہوں گی۔ ان میں وادی کے لیے 47اور جموں  کے  لیے 43  اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے 24نشستیں مختص ہوں گی۔ بھارتی سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا ڈیسائی کی سربراہی میں  بھارتی  حد بندی کمیشن  کا غیر معمولی اجلاس گزشتہ روز نئی دہلی میں ہوا ۔ اجلاس میں بھارتی حکام ، کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھی شرکت کی ۔بھارتی حد بندی کمیشن نے مقبوضہ کشمیر میں ہندو وزیر اعلی کے لیے  راہ ہموار کرتے ہوئے  وادی کے مقابلے میں جموں کو6 اضافی اسمبلی نشستیں دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جبکہ وادی کو صرف ایک نئی نشست ملے گی ۔

بھارتی اخبار کے مطابق جموں و کشمیر حد بندی کمیشن نے جموں خطے کیلئے 6 اضافی اسمبلی نشستیں اور ایک کشمیر کیلئے تجویز کی ہے جب کہ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کیلئے 16 حلقے  مخصوص کئے ہیں۔کشمیر ڈویژن میں اس وقت 46 اور جموں میں 37 نشستیں ہیں۔ اجلاس کے دوران نشستوں کو بڑھانے کے مسودہ کو پیش کیا گیا اور کمیشن  میں موجود مقبوضہ کشمیر  کی سیاسی  جماعتوں کے  نمائندوں سے کہا گیا کہ وہ 31 دسمبر تک نشستوں کے مجوزہ اضافے پر اپنی رائے پیش کریں۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ، نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی ، سمیت  پانچ پارٹیوں کے پیپلز الائنس (PAGD) کے چیئرمین بھی ہیں، نے میڈیا کو بتایا کہ  وہ اپنی پارٹی کے ساتھیوں کو کمیشن کی بحث کے بارے میں آگاہ کریں گے۔

عبداللہ نے کہا، “ہم پہلی بار میٹنگ میں شریک ہوئے کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز سنی جائے۔ ، ہمیں ان سیٹوں کے بارے میں بھی نہیں بتایا گیا ہے جو وہ شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کیلئے ریزرو کر رہے ہیں۔ کمیشن نے جموں و کشمیر میں شیڈول ٹرائب کیلئے 9 اور شیڈول کاسٹ کیلئے 7 سیٹیں تجویز کی ہیں۔اگست 2019 میں پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر تنظیم نو بل کی منظوری کے بعد حد بندی کمیشن فروری 2020 میں قائم کیا گیا تھا۔ابتدائی طور پر اسے ایک سال کے اندر کام مکمل کرنے کو کہا گیا تھا لیکن  کرونا کی  وجہ سے اس سال مارچ میں اسے ایک سال کی توسیع دینا پڑی ۔

کمیشن کو جموں وکشمیرمیں پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کا کام سونپا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق  بھارتی  حد بندی کمیشن کی رپورٹ سے کشمیر اور جموں میں اسمبلی نشستوں کا فرق کم ہوتا جارہا ہے۔1996میں دونوں صوبوں کے درمیان 10نشستوں کا فرق تھا۔اس وقت کشمیر میں 42اور جموں میں 32 نشستیں تھیں۔2021تک فرق 9نشستوںرہا ہے۔ کشمیر میں46 اورجموں میں37 اسمبلی حلقے ہیں۔اب صرف 4نشستوں کا فرق رہ گیا ہے۔ نئی حد بندی کے مطابق کشمیر میں 47اور جموں میں 43 نشستیں ہونگی۔ غالب امکان ہے کہ آئندہ حد بندی کمیشن اس فرق کو بھی ختم کر کے کشمیر میں 48اور جموں کو 52 نشستوں پر لے آئے۔  ڈوڈہ میں میڈیا سے بات چیت میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی  اورکانگریس کے سینئرلیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ دونوں خطوں میں برابری کی بنیاد پر سیٹوں کی تقسیم ہونی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ چھ سیٹیں خط چناب، ادھم پور اور کٹھوعہ کو ملنی چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک ایس ٹی کا تعلق ہے تو جموں اور کشمیر دونوں خطوں میں ایس ٹی کی آبادی لگ بھگ ایک جیسی ہے لہذا اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی برابری کی بنیاد پر سیٹوں کی تقسیم کا فیصلہ لیاجانا چاہئے ۔نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے جموں وکشمیر حد بندی کمیشن کی سفارشات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن کی سفارشات پر بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا غالب رہا ہے۔ عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں کہاجموں وکشمیر حد بندی کمیشن کی ڈرافٹ سفارشات نا قابل قبول ہیں، نئی سیٹوں کی تقسیم کاری میں جموں کو چھ اور کشمیر کے لئے صرف ایک سیٹ سال2011 کی مردم شماری کے مطابق جائز نہیں ہے ۔عمر عبداللہ نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہایہ انتہائی مایوس کن بات ہے کہ کمیشن نے اعداد و شمار کے بجائے بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کو غالب رہنے کی اجازت دی ہے ۔ان کا ٹویٹ میں مزید کہنا تھاوعدہ کئے گئے سائنسی اپروچ کے برعکس سیاسی اپروچ سے کام لیا گیا ہے ۔

پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ حد بندی کمیشن کا قیام جموں و کشمیر کے لوگوں کو مذہبی و علاقائی خطوط پر منقسم کرکے بی جے پی کے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے عمل میں لایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کا اصلی گیم پلان جموں و کشمیر میں ایک ایسی حکومت قائم کرنا ہے جو اگست 2019 کے غیر قانونی و غیر آئینی فیصلوں کو جائز قرار دے گی۔محبوبہ مفتی نے اپنے دوسرے ٹویٹ میں کہاحد بندی کمیشن کے متعلق میرے خدشات غلط نہیں تھے ۔ان کا ٹویٹ میں مزید کہنا تھامردم شماری کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک خطے کیلئے چھ سیٹیں اور کشمیر کیلئے صرف ایک سیٹ تجویز کرکے وہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا چاہتے ہیں۔جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے حد بندی کمیشن کی تجاویز مسترد کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ یہ تجاویز قابلِ قبول نہیں ہیں ، کیونکہ اس میں تفرقہ پیدا کرنے کی بو آرہی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ڈرافٹ تجاویز جمہوریت میں یقین رکھنے والے افراد کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں ۔ جموں وکشمیر اپنی پارٹی کے صدر سید الطاف بخآری کا کہنا ہے کہ یہ سائنسی بنیادوں پر مبنی تجاویز نہیں ہیں ۔ ڈرافٹ تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے الطاف بخآری نے امید ظاہر کی کہ حکومت ہند اور الیکشن کمیشن ان تجاویز پر دوبارہ غورو خوض کریں گے ۔ تاکہ اسمبلی نشستوں کی از سر نو حد بندی کے تعلق جموں وکشمیر کے لوگوں کے حق میں صحیح فیصلہ سامنے آئے