حافظ قرآن کو اضافی نمبر دینے کا معاملہ: جسٹس فائز نے اسپیشل بینچ بنانے پر اعتراض اٹھادیا

اسلا م آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائزعیسی نے اسپیشل بینچ بنانے پر اعتراض اٹھادیا۔سپریم کورٹ میں میڈیکل طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبر دینے کے بارے میں ازخود نوٹس پر سماعت ہوئی۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی اسپیشل بینچ نے میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائزعیسی نے اسپیشل بینچ بنانے پر اعتراض اٹھادیا اور اسپیشل بینچ میں کیس سننے سے انکار کردیا۔جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ رولز میں کہاں درج ہے کہ اسپیشل بینچ بنایا جاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کا ریگولر بینچ کیسزکیوں نہیں سن سکتا؟ اتنا بھی کیا ضروری معاملہ تھا کہ لارجربینچ یا فل کورٹ کے بجائے خصوصی بینچ بنایا جائے؟ اٹارنی جنرل کیا اسپیشل بینچز بنائے جانے چاہئیں؟ہاں یا ناں میں جواب دیں۔اس پر اٹارنی جنرل شہزاد عطاالہی نے جواب دیا کہ اگرعدالت اس معاملے پرنوٹس کرے گی توجواب دے دوں گا۔

وکیل پی ایم ڈی سی نے کہا کہ روایت پربھی عمل ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ہرچیز رولز یا آئین میں درج ہو۔اس پر جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کیا مارشل لا لگ جائے تو اس کو بھی روایتی عمل سمجھ کرقبول کرلیں گے؟ جو آئین وقانون میں درج ہو اسی پرعمل کرنا ہوتا ہے، تین ججز کو 3 مختلف بینچز سے اکٹھا کرکے اس بینچ میں بٹھادیا ہے، یا تو کچھ اتنا اہم ہوتا کہ چھٹی کے دن عدالت لگتی اور خصوصی بینچ بنایا جاتا۔ان کا مزید کہنا تھاکہ میڈیکل طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر20 اضافی نمبردینے کا حکم 14 ماہ پرانا ہے، اگر 20 فیصد اضافی نمبرحافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر دینے ہیں تو پارلیمان سے قانون سازی کرائیں، کیا پارلیمان کا احتساب نہیں ہوتا؟ کیا ججز قابل احتساب نہیں؟ میرے علم کے مطابق ججز کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔

جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ججزپرغیرضروری الزامات نہیں لگنے چاہئیں، اتنی دفعہ مارشل لا لگ چکا ہے، پیمرا سمیت سب کی ذہنیت نہیں بدلی، کیا آپ ملک کو سکیورٹی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں؟ اگرمیں غلط کروں تو میرا کنڈکٹ کیوں زیربحث نہیں آسکتا؟ان کا کہنا تھاکہ میڈیکل طلبہ کوحافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر اضافی نمبر دینا سمجھ سے بالاترہے۔اس پر اٹارنی جنرل نے بتایاکہ صرف میڈیکل ڈگری ہی نہیں ہرشعبے میں حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر20 اضافی نمبر دیے جاتے ہیں۔اس پر جسٹس فائز عیسی نے استفسار کیا کہ یہ حساس معاملہ ہے، مسلمان حفظ اللہ کیلئے کرتا ہے، نمبر لینے کیلئے نہیں، کیا کسی مسیح کو انجیل حفظ کرنے پر 20 اضافی نمبر ملتے ہیں؟

انہوں نے اعتراض اٹھایاکہ کیس کو تبھی سنا جاسکتا ہے جب شفافیت سے مقرر ہوا ہو، شفاف طریقہ کارسے مقررنہ ہونے والے کیسزکے فیصلے پربھی سوالات اٹھتے ہیں، اس طریقہ کارسے یہ کیس نہیں سن سکتا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام کرنے کا طریقہ کار ایک معمہ ہے جو میری سمجھ سے بالاترہے،قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ اگر میں اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں اور کورٹ رپورٹرز خبر دے دیں تو ان کا چینل بند ہو جائے گا، پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری تباہ کر رہا ہے، پیمرا انہی ٹی وی چینلز کے لائسنسوں پر کماتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ جب ٹی وی خبریں نہیں چلا سکے گا تو عوام سوشل میڈیا ہی دیکھیں گے، پیمرا کا یہ خط شرعی عدالت میں جائے تو اسلام کے منافی ہونے پر بھی معطل ہو جائے گا، اگر کوئی جھوٹی خبر دے تو اس کے خلاف پیمرا کارروائی کرے۔

انہوں نے کہا کہ پیمرا کیوں سیشن، سول جج یا مجسٹریٹ کے خلاف بولنے پر کارروائی نہیں کرتا، پچھلے سال جنوری میں یہ کیس لگانے کو کہا اور رجسٹرار صاحب نے مقرر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے جج بن جائیں تو کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا نمبر 140 کے قریب ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اتنی دفعہ مارشل لا لگ چکا ہے کہ پیمرا سمیت سب کی ذہنیت نہیں بدلی، کیا آپ ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر میں غلط کروں تو میرا کنڈکٹ کیوں زیر بحث نہیں آسکتا۔